20. جب (ناصح و معلم) کوئی ناپسندیدہ بات دیکھے تو غضبناک انداز میں نصیحت و تلقین کر سکتا ہے۔
حدیث نمبر: 79
سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے (آ کر) کہا کہ یا رسول اللہ! میں عنقریب نماز (جماعت کے ساتھ) نہ پا سکوں گا۔ کیونکہ فلاں شخص ہمیں بہت طویل نماز پڑھاتا ہے۔ ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نصیحت کرنے میں اس دن سے زیادہ کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ میں نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے لوگو! تم (ایسی سختیاں کر کر کے لوگوں کو دین سے) نفرت دلانے والے ہو (دیکھو؟) جو کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے اسے چاہیے کہ (ہر رکن کے ادا کرنے میں) تخفیف کرے، اس لیے کہ مقتدیوں میں مریض بھی اور کمزور بھی ہیں اور ضرورت والے بھی۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 79]
حدیث نمبر: 80
سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے گری پڑی (لاوارث) چیز کا حکم پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی بندش کو پہچان لے۔“ یا یہ فرمایا: ”اس کے ظرف کو اور اس کو تھیلی کو (پہچان لے) پھر سال بھر اس کی تشہیر کرے (یعنی اس کے اصل مالک کو تلاش کرے) پھر اس کے بعد (اگر کوئی مالک اس کا نہ ملے تو) اس سے فائدہ اٹھا لے اور اگر اس کا مالک (سال بعد بھی) آ جائے تو اسے اس کے حوالے کر دے۔“ پھر اس شخص نے کہا کہ کھویا ہوا اونٹ (اگر ملے تو اس کو کیا کیا جائے)؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غضبناک ہوئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں رخسار مبارک سرخ ہو گئے یا (راوی نے کہا کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجھے اس اونٹ سے کیا مطلب؟ اس کی مشک اور اس کا پاپوش اس کے ساتھ ہے، پانی پر پہنچے گا (تو پانی پی لے گا) اور درخت (کے پتے) کھا لے گا، لہٰذا اسے چھوڑ دے، یہاں تک کہ اس کو اس کا مالک مل جائے۔“ پھر اس شخص نے کہا کہ کھوئی ہوئی بکری (کا پکڑ لینا کیسا ہے)؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اس کو پکڑ لو کیونکہ وہ) تمہاری ہے یا تمہارے بھائی کی یا (اگر کسی کے ہاتھ نہ لگی تو) پھر بھیڑیئے کی۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 80]
حدیث نمبر: 81
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ(ایک مرتبہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے چند باتیں پوچھی گئیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مزاج تھیں۔ (تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ جواب نہ دیا مگر) جب (ان سوالات کی) آپ کے سامنے بھرمار کر دی گئی تو آپ کو غصہ آ گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کچھ چاہو مجھ سے پوچھ لو۔“ تو ایک شخص نے کہا کہ میرا باپ کون ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا باپ حذافہ ہے۔“ پھر دوسرا شخص کھڑا ہو اور اس نے کہا کہ یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ”تیرا باپ سالم ہے، شیبہ کا غلام۔“ پھر جب عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر آثار غضب دیکھے تو انھوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہم اللہ بزرگ و برتر سے توبہ کرتے ہیں (یعنی اب کبھی اس قسم کے سوالات آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ کریں گے)۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 81]