2189. سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی پیشین گوئی، سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل کی حیثیت
حدیث نمبر: 3296
-" أتاني جبريل عليه الصلاة والسلام، فأخبرني أن أمتي ستقتل ابني هذا (يعني الحسين)، فقلت: هذا؟ فقال: نعم، وأتاني بتربة من تربته حمراء".
سیدہ ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے رات کو قبیح خواب دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”وہ کیا ہے؟“، اس نے کہا: وہ بہت سخت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آخر وہ ہے کہا؟“، اس نے کہا: مجھے ایسے لگا کہ آپ کے جسم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر میری گود میں پھینکا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو نے عمدہ خواب دیکھا ہے، (اس کی تعبیر یہ ہے کہ) ان شاء اﷲ میری بیٹی فاطمہ کا بچہ پیدا ہو گا جو تیری گود میں ہو گا۔“ واقعی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بچہ حسین پیدا ہوا جو میری گود میں تھا، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ ایک دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی اور حسین کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں رکھ دیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوئے تو آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ میں کہا: اے اللہ کے نبی ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کو کیا ہو گیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھے بتلایا کہ میری امت میرے اس بیٹے کو قتل کر دے گی۔“ میں نے کہا: یہ بیٹا (حسین)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، وہ میرے پاس اس علاقے کی سرخ مٹی بھی لائے۔“[سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3296]
سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 821
حدیث نمبر: 3297
-" لقد دخل علي البيت ملك لم يدخل علي قبلها، فقال لي: إن ابنك هذا: حسين مقتول وإن شئت أريتك من تربتة الأرض التي يقتل بها".
سیدہ عائشہ و سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کسی ایک کو فرمایا: ”آج گھر میں میرے پاس ایسا فرشتہ آیا، جو پہلے کبھی نہیں آیا تھا، اس نے مجھے کہا: آپ کا یہ حسین بیٹا قتل ہو جائے گا، اگر آپ چاہتے ہیں تو میں اس کے مقتل ( جائے قتل) کی مٹی آپ کو دکھا دیتا ہوں۔ پھر اس نے سرخ مٹی نکال ( کر مجھے دکھائی)۔“[سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3297]
سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 822
حدیث نمبر: 3298
-" قام من عندي جبريل قبل، فحدثني أن الحسين يقتل بشط الفرات".
عبداللہ بن نجی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ طہارت والے پانی کا برتن اٹھا کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ چل رہے تھے، جب صفین کی طرف جاتے ہوئے نینوی مقام تک پہنچے، تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے آواز دی: ابوعبداللہ! ٹھہر جاؤ، دریائے فرات کے کنارے ٹھہر جاؤ۔ میں نے کہا: ادھر کیا ہے؟ انہوں نے کہا: میں ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، اس حال میں کہ آپ کی آنکھیں اشک بار تھیں۔ میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! کسی نے آپ کو غصہ دلایا ہے؟ آپ کی آنکھیں کیوں آنسو بہار ہی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری کی آمد سے قبل جبریل امین میرے پاس سے اٹھ کر گئے ہیں، انہوں نے مجھے خبر دی ہے کہ حسین کو دریائے فرات کے کنارے قتل کر دیا جائے گا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے کہا: میں آپ کو اس کی مٹی کی خوشبو سونگھاؤں؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ پس اس نے اپنا ہاتھ لمبا کیا، مٹی کی مٹھی بھری اور مجھے دے دی۔ میں اپنے آپ پر قابو نہ پا سکا اور رونے لگ گیا۔“[سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3298]