- (إنِّي دافعٌ لِوَائي غداً إلى رجُلٍ يحبُّ الله ورسوله، ويحبُّه الله ورسولُه، لا يرجعُ حتّى يُفتح له. يعني: علياً- رضي الله عنه-).
عبداللہ بن بریدہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوبریدہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ، ہم نے خیبر کا محاصرہ کر لیا، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جھنڈا پکڑا، لیکن فتح نہ ہوئی۔ دوسرے دن عمر رضی اللہ عنہ نے جھنڈا تھاما، لیکن فتح نہ ہو سکی اور لوگوں کو اس دن بڑی مصیبت و پریشانی اور محنت و مشقت کا سامنا کرنا پڑا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” کل میں ایسے آدمی کو جھنڈا عطا کروں گا، جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں، وہ اس وقت تک نہیں لوٹے گا، جب تک فتح نہ ہو جائے گی۔“ ہم نے اس امید میں خوشگوار موڈ میں رات گزاری کہ کل فتح ہو گی، جب صبح ہوئی تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر پڑھائی، پھر کھڑے ہوئے، جھنڈا منگوایا۔ لوگ اپنی نشستوں پر بیٹھے رہے۔ جو انسان بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک مقام و مرتبے والا تھا، اسے جھنڈا بردار ہونے کی امید تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کو بلایا، اس وقت وہ آشوب چشم کے مرض میں مبتلا تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لعاب ان کی آنکھ پر لگایا اور پھر اسے صاف کر دیا اور انہیں جھنڈا تھما دیا، اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ پر فتح عطا کر دی۔ میں بھی ان میں تھا جو دیکھنے کے لئے گردن لمبی کر رہے تھے (کہ جھنڈا کس کو ملتا ہے؟)۔ [سلسله احاديث صحيحه/الخلافة والبيعة والطاعة والامارة/حدیث: 1389]