- (إنّ الله حبس عن مكة القتل- أو الفيل، شك أبو عبد الله-، وسلط عليهم رسول الله - صلى الله عليه وسلم - والمؤمنين، ألا وإنها لم تحلّ لأحد قبلي، ولم تحل لأحد بعدي، ألا وإنها حلت لي ساعة من نهار، ألا وإنها ساعتي هذه حرامٌ؛ لا يختلى شوكها، ولا يعضدُ شجرها، ولا تلتقط ساقطتها إلا لمنشد، فمن قُُتلَ؛ فهو بخير النظرين: إما أن يعقل، وإما أن يُقاد أهل القتيل).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بنو خزاعہ نے فتح مکہ والے سال اپنے ایک مقتول کے بدلے بنو لیث کا ایک آدمی قتل کیا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر سوار ہوئے اور خطبہ دیا، جس میں یہ بھی فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے مکہ میں قتل کرنے سے منع کر دیا ہے اور رسول اللہ اور مومنوں کو ان پر مسلط کر دیا ہے۔ خبردار! یہ (حرم مکی) نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال تھا اور نہ (کسی کے لیے) بعد میں ہو گا۔ آگاہ رہو! اسے میرے لیے دن کی کچھ گھڑی کے لیے حلال کیا گیا۔ خبردار! اب اس وقت میں یہ حرام ہے، اس کے کانٹوں کو نہ اکھاڑا جائے، اس کے درختوں کو نہ کاٹا جائے اور اس کی گری پڑی چیز کو نہ اٹھایا جائے، مگر تشہیر کے لیے۔ اگر کوئی قتل ہو جائے تو (اس کے ورثا کو) دو اختیارات میں سے ایک کا حق حاصل ہے، یا تو وہ دیت لے لیں یا پھر قصاص۔“ ایک یمنی آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! (یہ خطبہ) میرے لیے لکھوا دیجئیے۔ آپ نے فرمایا: ”ابوفلاں کے لیے لکھ دو۔“( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ کے دوران) ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! اذخر نامی گھاس (کو کاٹنے کی اجازت دے دیں) کیونکہ ہم اس گھاس کو گھروں اور قبروں میں استعمال کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”( ٹھیک ہے) اذخر گھاس ( کاٹ سکتے ہو)۔“ امام مسلم نے ( اس روایت کے الفاظ میں) یہ زیادتی کی ہے: ولید نے کہا: میں نے اوزاعی سے کہا: ”( یمنی نے جو یہ کہا: کہ) اے اللہ کے رسول! میرے لیے لکھوا دیں۔ سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا: وہ خطبہ جو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا۔ [سلسله احاديث صحيحه/الحدود والمعاملات والاحكام/حدیث: 1191]
سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 3529
حدیث نمبر: 1192
- (إنّ مكة حرّمها الله ولم يحرّمها الناس، فلا يحلّ لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دماً، ولا يعضد بها شجرة؛ فإن أحدٌ ترخّص لقتال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فيها؛ فقولوا: إنّ الله قد أذن لرسوله ولم يأذن لكم، وإنما أذن لي فيها ساعةً من نهار، ثم عادت حرمتها اليوم كحرمتها بالأمس، وليبلغ الشاهدُ الغائب).
سیدنا ابوشریح رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن ایک بات ارشاد فرمائی، میرے کانوں نے اسے سنا، میرے دل نے اسے یاد رکھا اور میری آنکھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات ارشاد فرماتے ہوئے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور پھر فرمایا: ” بیشک مکہ کو لوگوں نے نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے حرمت والا قرار دیا، اب کسی ایسے شخص کے لیے حلال نہیں، جو اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، کہ وہ یہاں خون بہائے یا درخت کاٹے۔ اگر کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتال (کو دلیل بنا کر اپنے لیے) رخصت نکالنا چاہے تو اسے کہہ دینا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مکہ میں (قتال کی) اجازت دی اور تمہیں نہیں دی اور مجھے بھی دن کے کچھ وقت کے لیے (لڑائی کرنے کی) اجازت ملی ہے، اس کے بعد اس کی حرمت اسی طرح ہو گئی جس طرح کل تھی۔ موجودہ لوگ (یہ احکام) غائب لوگوں تک پہنچا دیں۔“[سلسله احاديث صحيحه/الحدود والمعاملات والاحكام/حدیث: 1192]