-" أما إن كل بناء وبال على صاحبه إلا ما لا، إلا ما لا، يعني: ما لابد منه".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے، ایک بلند گنبد دیکھا اور فرمایا:”یہ کیا ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے کہا: یہ فلاں انصاری آدمی کا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور اس بات کو اپنے دل میں رکھ لیا۔ جب اس کا مالک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور لوگوں کی موجودگی میں آپ کو سلام کہا۔ آپ نے اس سے اعراض کیا، اس نے کئی مرتبہ سلام کہا (لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعراض کرتے رہے)۔ بالآخر اس آدمی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی اور اعراض کا اندازہ ہو گیا، اس نے صحابہ سے اس بات کی شکایت کی اور کہا: بخدا! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عجیب و اجنبی محسوس کر رہا ہوں۔ انہوں نے کہا: آپ باہر نکلے تھے اور تیرا گنبد دیکھا تھا۔ سو وہ آدمی فوراً اپنے گنبد کی طرف لوٹا اور اس کو گرا کر زمین میں برابر کر دیا۔ (پھر) ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور وہ گنبد آپ کو نظر نہ آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”گنبد کو کیا ہوا؟“ صحابہ نے کہا: اس نے ہمارے سامنے آپ کے اعراض کرنے کا شکوہ کیا، ہم نے (آپ کی ناپسندیدگی کی ساری صورتحال) اس پر واضح کر دی، اس لیے اس نے اس کو منہدم کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خبردار! ہر عمارت اپنے مالک کے حق میں وبال ہے، سوائے اس کے جس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہو۔“[سلسله احاديث صحيحه/الزكاة والسخاء والصدقة والهبة/حدیث: 953]
سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 2830
حدیث نمبر: 954
-" إن الرجل يؤجر في نفقته كلها إلا في هذا التراب".
ہم سیدنا خباب رضی اللہ عنہ، جنہوں نے اپنے بدن پر سات داغ لگائے ہوئے تھے، کے پاس بیمار پرسی کے لیے آئے۔ انہوں نے کہا: اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا کہ ”موت کی تمنا نہ کیا کرو“ تو میں ضرور موت کی تمنا کرتا۔ وہ اپنی دیوار (یعنی مکان وغیرہ) درست کر رہے تھے، اسی اثنا میں انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: آدمی کو اس کے ہر قسم کے خرچے پر اجر دیا جاتا ہے مگر اس مٹی میں (یعنی مکان تعمیر کرنے میں کوئی اجر نہیں)۔ [سلسله احاديث صحيحه/الزكاة والسخاء والصدقة والهبة/حدیث: 954]