- أبشروا وبشروا من وراءكم أنه من شهد أن لا إله إلا الله صادقا دخل الجنة".
ابوبکر بن ابوموسی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: میں اپنی قوم کے کچھ افراد کے ہمراہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خوش ہو جاؤ اور پچھلوں کو بھی یہ خوشخبری سنا دو کہ جس نے صدق دل سے گواہی دی کہ اللہ ہی معبود برحق ہے تو وہ جنت میں داخل ہو گا.“ ہم لوگوں کو خوشخبری سنانے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نکلے، ہمیں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ملے اور (جب ان کو صورتحال کا علم ہوا تو) ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف واپس کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تمہیں کس نے واپس کر دیا؟“ ہم نے کہا: عمر رضی اللہ عنہ نے۔ آپ نے پوچھا: ”عمر! تم نے ان کو کیوں لوٹا دیا؟“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: (اگر ایسی خوشخبریاں لوگوں کو سنائی جائیں تو) وہ توکل کر بیٹھیں گے (اور مزید عمل کرنا ترک کر دیں گے)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر خاموش ہو گئے۔ [سلسله احاديث صحيحه/الايمان والتوحيد والدين والقدر/حدیث: 299]
سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 712
حدیث نمبر: 300
-" اخرج فناد في الناس: من شهد أن لا إله إلا الله وجبت له الجنة".
سلیم بن عامر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نکل جا اور لوگوں میں اعلان کر دے کہ جس نے گواہی دی کہ اللہ ہی معبود برحق ہے، اس کے لئے جنت واجب ہو جائے گی۔“ وہ کہتے ہیں: میں اعلان کرنے کے لئے نکلا، آگے سے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ٹاکرا ہوا، انہوں نے کہا: ابوبکر کہاں اور کیسے؟ میں نے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جاؤ اور لوگوں میں اعلان کر دو کہ جس نے گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے، تو اس کے لئے جنت واجب ہو جائے گی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: (یہ اعلان کئے بغیر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹ جاؤ، مجھے خطرہ ہے کہ لوگ اس (بشارت) پر توکل کر کے عمل کرنا ترک کر دیں گے۔ میں لوٹ آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”واپس کیوں آ گئے ہو؟“ میں نے آپ کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ والی بات بتائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمر نے سچ کہا:۔“[سلسله احاديث صحيحه/الايمان والتوحيد والدين والقدر/حدیث: 300]