119. دعوت اسلام پر مشتمل ہرقل کے نام خط، قبولیت اسلام کے سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی صفات
حدیث نمبر: 186
- (بسم الله الرحمن الرحيم: من محمد عبد الله ورسوله: إلى هرقل عظيم الروم؛ سلام على من اتبع الهدى، أما بعد: فإني أدعوك بدعاية الإسلام: أسلم تسلم: يؤتك الله أجرك مرتين؛ فإن توليت فإن عليك إثم الأريسيين؛ و (يا أهل الكتاب تعالوا إلى كلمة سواء بيننا وبينكم أن لا نعبد إلا الله ولا نشرك به شيئاً ولا يتخذ بعضنا بعضاً أرباباً من دون الله فإن تولوا فقولوا اشهدوا بأنا مسلمون)).
سیدنا ابوسفیان بن حرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں (شاہ روم) ہرقل نے اس کو بلانے کے لئے اس کی طرف ایک آدمی بھیجا، جبکہ وہ قریش کے ایک قافلے میں تھا، اس وقت یہ لوگ تجارت کے لئے شام گئے ہوئے تھے اور یہ وہ زمانہ تھا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش اور سفیان سے ایک وقتی عہد کیا ہوا تھا، ابوسفیان اور دوسرے لوگ ہرقل کے پاس ایلیا پہنچ گئے، ہرقل نے دربار طلب کیا تھا، اس کے اردگرد روم کے بڑے بڑے لوگ (علماء، وزرا اور امرا) بیٹھے ہوئے تھے۔ ہرقل نے ان کو اور اپنے ترجمان کو بلوایا، پھر ان سے پوچھا کہ تم میں سے کون شخص مدعی رسالت کا زیادہ قریبی عزیز ہے؟ ابوسفیان کہتے ہیں: میں بول اٹھا کہ میں اس کا سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار ہوں (یہ سن کر) ہرقل نے حکم دیا کہ اس (سفیان) کو میرے قریب لا کر بٹھاؤ اور اس کے ساتھیوں کو اس کے پیٹھ کے پیچھے بٹھا دو، پھر اپنے ترجمان سے کہا: ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں ابوسفیان سے اس شخص (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے حالات پوچھتا ہوں، اگر یہ مجھ سے کسی بات میں جھوٹ بول دے تو تم اس کا جھوٹ ظاہر کر دینا۔ (ابوسفیان کا قول ہے کہ) خدا کی قسم! اگر مجھے یہ غیرت نہ آتی کہ یہ لوگ مجھ کو جھٹلائیں گے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ضرور غلط گوئی سے کام لیتا۔ خیر پہلی بات جو ہرقل نے مجھ سے پوچھی۔ (ہم آسانی کے لئے روایت کا ترجمہ مکالمے کی صورت میں پیش کرتے ہیں) ہرقل: تم لوگوں میں اس شخص کا خاندان کیسا ہے؟ ابوسفیان: وہ بڑے عالی نسب والا ہے۔ ہرقل: اس سے پہلے بھی کسی نے تم لوگوں میں ایسی بات کہی تھی؟ ابوسفیان: نہیں۔ ہرقل: اس کے بڑوں میں کوئی بادشاہ ہوا تھا؟ ابوسفیان: نہیں۔ ہرقل: بڑے لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی ہے یا کمزوروں نے؟ ابوسفیان: کمزوروں نے کی ہے۔ ہرقل: اس کے تابعدار روز بروز بڑھ رہے ہیں یا گھٹ رہے ہیں؟ ابوسفیان: بڑھ رہے ہیں۔ ہرقل: کیا کوئی اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد اس دین کو ناپسند کرتے ہوئے مرتد بھی ہوا ہے؟ ابوسفیان: نہیں۔ ہرقل: کیا اس دعوئ نبوت سے پہلے تم لوگ اس پر جھوٹ کی تہمت لگاتے تھے؟ ابوسفیان: نہیں۔ ہرقل: کیا وہ دھوکا کرتا ہے؟ ابوسفیان: نہیں اور اب ہماری اس سے (صلح کی) مقرہ مدت ٹھہری ہوئی ہے، معلوم نہیں وہ اس میں کیا کرنے والا ہے۔ میں اس بات کے سوا اور کوئی (جھوٹ) اس گفتگو میں شامل نہ کر سکا۔ ہرقل: کیا تمہاری اس سے کبھی لڑائی ہوئی ہے؟ ابوسفیان: ہاں۔ ہرقل: تمہاری اور اس کی جنگ کا کیا حال ہوا؟ ابوسفیان: کبھی اس کے فریق کو کامیابی ہوئی اور کبھی ہمارے فریق کو، کبھی وہ جیت جاتے کبھی ہم۔ ہرقل: وہ تمہیں کس چیز کا حکم دیتا ہے؟ ابوسفیان: وہ کہتا ہے اللہ کی عبادت کرو، جو یکتا و یگانہ ہے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور اپنے باپ دادا والی (شرک والی) باتیں چھوڑ دو اور ہمیں نماز پڑھنے، سچ بولنے، پرہیزگاری اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے۔ (یہ سب سن کر) ہرقل نے اپنے ترجمان کو کہا: ابوسفیان سے کہہ دے کہ میں نے تم سے اس کا نسب پوچھا تو تم نے کہا کہ وہ ہم میں عالی نسب ہے اورر پیغمبر اپنی قوم میں عالی نسب ہی ہوتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ (دعوئ نبوت کی) یہ بات تمہارے اندر اس سے پہلے کسی اور نے بھی کہی تھی، تم نے جواب دیا نہیں۔ تب میں نے (اپنے دل میں) کہا کہ اگر یہ بات اس سے پہلے کسی نے کہی ہوتی تو میں یہ سمجھتا کہ اس شخص نے بھی اس بات کی تقلید کی ہے، جو پہلے کہی جا چکی ہے۔ میں نے تم سے پوچھا اس کے بڑوں میں کوئی بادشاہ بھی گزرا ہے، تم نے کہا نہیں، میں نے (دل میں) کہا کہ اگر ان کے بزرگوں میں سے کوئی بادشاہ گزرا ہوتا تو کہہ دیتا وہ شخص (یہ بہانا بنا کر) اپنے آباؤ اجداد کی بادشاہت اور ان کا ملک (دوبارہ) حاصل کرنا چاہتا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ اس بات کے کہنے (یعنی پیغمبری کا دعوئ کرنے) سے پہلے تم نے کبھی اس پر جھوٹ بولنے کا الزام لگایا ہے، تم نے کہا کہ نہیں، میں نے سمجھ لیا جو شخص آدمیوں کے ساتھ دروغ گوئی سے بچے وہ اللہ کے بارے میں کیسے جھوٹی بات کہہ سکتا ہے، اور میں نے تم سے پوچھا کہ بڑے اس کے پیرو ہیں یا کمزور آدمی، تم نے کہا کہ کمزوروں نے اس کی اتباع کی ہے، (دراصل) یہی لوگ پیغمبروں کے متبعین ہوتے ہیں اور میں نے تم سے پوچھا اس کے ساتھی بڑھ رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں، تم نے کہا وہ بڑھ رہے ہیں اور ایمان کی کیفیت یہی ہوتی ہے حتی کے وہ کامل ہو جاتا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا کوئی شخص اس دین سے ناخوش ہو کر مرتد بھی ہو جاتا ہے، تم نے کہا نہیں۔ درحقیقت ایمان کی خاصیت بھی یہی ہے جن کے دلوں میں اس کی مسرت رچ بس جائے وہ اس سے لوٹا نہیں کرتے اور میں نے تم سے پوچھا، آیا اس نے کبھی عہدشکنی بھی کی ہے، تم نے کہا کہ نہیں، پیغمبروں کا یہی حال ہوتا ہے وہ عہد کی خلاف ورزی نہیں کرتے اور میں نے تم سے کہا کہ وہ تمہیں کس چیز کا حکم دیتا ہے، تم نے کہا وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ اللہ تعالی کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور تمہیں بتوں کی پرستش سے روکتا ہے، سچ بولنے اور پرہیزگاری کا حکم دیتا ہے۔ اگر یہ باتیں، جو تم کہہ رہے ہو، سچ ہیں تو عنقریب وہ اس جگہ کا مالک بن جائے گا، جہاں میرے دو پاؤں ہیں۔ مجھے معلوم تھا وہ (پیغمبر) آنے والا ہے، لیکن یہ معلوم نہیں تھا وہ تمہارے اندر ہو گا، اگر میں جانتا کہ اس تک پہنچ سکوں گا تو اس سے ملنے کے لئے ہر تکلیف گوارا کرتا۔ اگر میں اس کے پاس ہوتا تو اس پاؤں دھوتا۔ ہرقل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ خط منگوایا، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے ذریعے حاکم بصریٰ کے پاس بھیجا تھا اور اس نے وہ ہرقل کے پاس بھیج دیا تھا، پھر اس کو پڑھا تو اس میں (لکھا تھا): «بسم اللہ الرحمٰن الرحیم» یہ خط اللہ کے بندے اور پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے شاہ روم کی طرف ہے۔ اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے اس کے بعد میں تم پر دعوت اسلام پیش کرتا ہوں، اگر آپ اسلام لے آئیں گے تو (آپ کو دین و دنیا میں) سلامتی نصیب ہو گی، اللہ تعالی آپ کو دوہرا ثواب دے گا اور اگر آپ (میری دعوت) سے روگردانی کریں گے تو آپ کی رعایا کا گناہ بھی آپ ہی پر ہو گا اور اے اہل کتاب! ایک ایسی بات پر آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے، وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور نہ ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا اپنا رب بنائے۔ پھر اگر وہ اہل کتاب (اس بات سے) منہ پھیر لیں تو (مسلمانو!) تم ان سے کہہ دو کہ (تم مانو یا نہ مانو) ہم تو ایک اللہ کے اطاعت گزار ہیں۔ ابوسفیان کہتے ہیں: جب ہرقل نے جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا اور خط پڑھ کر فارغ ہوا تو اس کے اردگرد بہت شور و غوغا ہوا۔ بہت سی آوازیں اٹھیں اور ہمیں باہر نکال دیا گیا۔ تب میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا ابوکبشہ کے بیٹے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کا معاملہ تو بہت بڑھ گیا۔ (دیکھو کہ) اس سے بنو اصفر (رومیوں) کا بادشاہ بھی ڈرتا ہے۔ مجھے اس وقت اس بات کا یقین ہو گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عنقریب غالب ہو کر رہیں گے، حتی کہ اللہ تعالی نے مجھے مسلمان کر دیا۔ (راوی کا بیان ہے کہ) ابن ناطور ایلیا کا حاکم ہرقل کا مصائب اور شام کے نصاریٰ کا لاٹ پادری بیان کرتا ہے کہ ہرقل جب ایلیا آیا، تو ایک دن صبح کو پریشان اٹھا، اس کے درباریوں نے دریافت کیا کہ آج ہم آپ کی حالت بدلی ہوئی پاتے ہیں، (کیا وجہ ہے؟) ابن ناطور کا بیان ہے کہ ہرقل نجومی تھا، وہ علم نجوم میں پوری مہارت رکھتا تھا، اس نے اپنے ہم نشینوں کو بتایا میں نے آج رات ستاروں پر نظر ڈالی کہ ختنہ کرنے والوں کا بادشاہ ہمارے ملک پر غالب آ گیا ہے، (بھلا) اس زمانے میں کون لوگ ختنہ کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا یہود کے سوا کوئی ختنہ نہیں کرتا، سو ان کی وجہ سے پریشان نہ ہوں، سلطنت کے تمام شہروں میں یہ حکم لکھ بھیجئے کہ وہاں جتنے یہودی ہوں سب قتل کر دیئے جائیں۔ وہ لوگ انہیں باتوں میں مشغول تھے کہ ہرقل کے پاس ایک آدمی لایا گیا، جسے شاہ غسان نے بھیجا تھا، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات بیان کئے۔ جب ہرقل نے سارے حالات سن لئے تو کہا جا کر دیکھو کہ وہ ختنہ کیے ہوئے ہے یا نہیں؟ انھوں نے اسے دیکھا تو بتلایا کہ وہ ختنہ کیے ہوئے ہے۔ ہرقل نے جب اس شخص سے عرب کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتلایا کہ وہ ختنہ کرتے ہیں، تب ہرقل نے کہا کہ یہ وہی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اس امت کے بادشاہ ہیں جو پیدا ہو چکے ہیں۔ پھر اس نے اپنے ایک دوست کو رومیہ خط لکھا اور وہ بھی علم نجوم میں ہرقل کی طرح ماہر تھا۔ پھر وہاں سے ہرقل حمص چلا گیا۔ ابھی حمص سے نکلا نہیں تھا کہ اس کے دوست کا جوابی خط آ گیا۔ اس کی رائے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے بارے میں ہرقل کی رائے کے موافق تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم (واقعی) پیغمبر ہیں۔ اس کے بعد ہرقل نے روم کے بڑے آدمیوں کو حمص کے محل میں طلب کیا اور اس کے حکم سے محل کے دروازے بند کر دیئے گئے۔ پھر وہ (اپنے خاص محل سے) باہر آیا اور کہا: اے روم والو! کیا ہدایت اور کامیابی میں کچھ حصہ تمہارے لئے بھی ہے؟ اگر تم اپنی سلطنت کی بقاء چاہتے ہو تو پھر اس نبی کی بیعت کر لو اور مسلمان ہو جاؤ (یہ سننا ہی تھا کہ) وہ سب وحشی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف دوڑے، مگر دروازوں کو بند پایا۔ آخر جب ہرقل نے (اس بات سے) ان کی یہ نفرت دیکھی اور ان کے ایمان لانے سے مایوس ہو گیا تو کہنے لگا کہ ان لوگوں کو میرے پاس لاؤ۔ (جب وہ دوبارہ آئے) تو اس نے کہا: میں نے جو بات کہی تھی اس سے تمہاری دینی پختگی کی آزمائش مقصود تھی، سو میں نے اس کو دیکھ لی۔ تب (یہ بات سن کر) وہ سب کے سب اس کے سامنے سجدے میں گر پڑے اور اس سے خوش ہو گئے۔ یہ ہرقل کا آخری معاملہ تھا۔ [سلسله احاديث صحيحه/الايمان والتوحيد والدين والقدر/حدیث: 186]