91. پر خلوص اعمال کو وسیلہ بنانا . . . . غار والوں کا واقعہ
حدیث نمبر: 151
ـ (إنّ ثلاثةً كانُوا في كهْفٍ، فوقعَ الجبلُ على بابِ الكهْفِ فأَوصدَ عليهم، قالَ قائلٌ منهم: تذَاكرُوا؛ أيّكُم عملَ حَسَنَةً؛ لعلّ اللهَ عزّ وجلّ برحمتِه يرحمُنا! فقالَ رجلٌ منهم: قدْ عملتُ حسَنَةً مرّةً؛ كانَ لي أُجَراءُ يعملونَ، فجاءَ عمّالٌ لِي، فاستأْجرتُ كلّ رجلٍ منهُم بأجْرٍ معلومٍ، فجاءني رجلٌ ذاتَ يومٍ وسطَ النّهارِ، فاستأْجَرتُه بشَطْرِ أصحابِه، فعمِلَ في بقيّةِ نهارِه كما عملَ كلّ رجلٍ منهم في نهارِه كلّه، فرأيتُ عليّ في الذِّمامِ أنْ لا أنقصَه مما استأجرتُ به أصحابَه؛ لِما جَهِدَ في عملِه، فقالَ رجلٌ منهم: أتعطِي هذا مثْلَ ما أعطيتَني ولم يعملْ إلا نصْفَ نهارٍ؟! فقلتُ: يا عبدَ الله! لم أبخسْكَ شيئاً من شرْطِك، وإنّما هو مالي أحكمُ فيه ما شئتُ! قال: فغضبَ وذهبَ، وتركَ أجرَه. قال: فوضعتُ حقّه في جانبٍ من البيْتِ ما شاءَ اللهُ، ثمّ مرّتْ بي بعدَ ذلكَ بقرٌ، فاشتريتُ به فصِيلَة (¬1) من البقَرِ؛ فبلغتْ ما شاءَ اللهُ. فمرّ بي بعدَ حينٍ شيْخاً ضَعِيفاً لا أعرفُه، فقال: إنّ لي عندَك حقّاً؛ فذكَّرنِيه حتى عرفْته، فقلتُ: إيّاك أبْغي، هذا حقُّك، فعرضتُها عليهِ جميعها! فقالَ: يا عبدَ الله! لا تسخرْ بي! إنْ لم تصْدُقْ عليَّ فأَعطِني حقِّي، قلتُ: واللهِ! لا أسخَرُ بكَ؛ إنّها لحقّكَ، ما لي منها شيءٌ، فدفعتها إليهِ جميعاً، اللهمّ! إنْ كنتُ فَعلتُ ذلكَ لوجهِك؛ فافْرُج عنّا! قال: فانصدعَ الجبلُ حتّى رأوا منه وأَبْصَرُوا ¬ __________ (¬1) هو ما فصل من اللبن من أولاد البقر: «نهاية» . قال الآخرُ: قد عملتُ حسنةً مرّةً؛ كانَ لي فضْل، فأصابتِ الناسَ شدّةٌ، فجاءتْني امرأةٌ تطلبُ منِّي معرُوفاً، قال: فقلتُ: واللهِ ما هو دونَ نفسِكِ! فأبتْ عليّ فذهبتْ، ثم رجعتْ فذكَّرتْني باللهِ، فأَبيتُ عليها وقلت: لا واللهِ؛ ما هو دون نفسِك! فأبتْ عليّ وذهبتْ، فذكرتْ لزوجِها، فقال لها: أَعطيهِ نفسَكِ، وأَغْني عيالَك! فرجعتْ إليّ، فناشدتْني باللهِ، فأبيتُ عليها، وقلتُ واللهِ ما هو دون نفسِك! فلمّا رأتْ ذلكَ أسلمتْ إليّ نفْسها، فلمّا تكشَّفْتُها وهممت بها؛ ارتعدتْ من تَحتي، فقلتُ: ما شأْنُك؟! قالتْ: أخافُ اللهَ ربَّ العالمينَ! فقلتُ لها: خفتِيه في الشّدةِ، ولم أَخفْهُ في الرّخاءِ! فتركتُها وأعطيتُها ما يحقُّ عليّ بما تكشّفتها، اللهمّ! إنْ كنتُ فعلتُ ذلك لوجهكَ؛ فافْرُج عنّا! قال: فانصدعَ حتّى عرفُوا وتبيّن لهم. قال الآخرُ: عملتُ حسنةً مرة؛ كانَ لي أبَوانِ شيخانِ كبيرانِ، وكانَ لي غَنَمٌ، فكنتُ أُطعِم أبويَّ وأسقِيهما، ثمّ رجعتُ إلى غنمي، قال: فأَصابني يومُ غيْثٍ حَبَسنِي، فلمْ أبْرحْ حتّى أمسيْتُ، فأتيتُ أهْلي، وأخذتُ مِحلبي، فحلبتُ غنمِي قائمةً، فمضيتُ إلى أبويّ؛ فوجدتُهما قد ناما، فشقّ عليّ أن أُوقظَهما، وشقّ أنْ أتركَ غنمِي، فما برحتُ جالساً؛ ومِحلبي على يدي حتى أيقظَهما الصبْحُ فسقيتُهما، اللهمّ! إنْ كنتُ فعلتُ ذلكَ لوجهِك؛ فافْرُج عنّا! ـ قال النعمان: لكأنِّي أسمعُ هذِه من رسولِ اللهِ - صلى الله عليه وسلم - ـ قال الجبل: طاق؛ ففرج الله عنهم فخرجوا).
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غار والوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ”ایک غار میں تین آدمیوں نے پناہ لی، پہاڑ کا کچھ حصہ غار کے دروازہ پر گرا اور اس کا راستہ بند کر دیا۔ ایک نے کہا: یاد کرو تم میں سے کسی نے نیک عمل کیا ہے، ممکن ہے اللہ تعالی اپنی رحمت کے سبب ہم پر رحم کر دے۔ ایک آدمی نے کہا: میں نے ایک دفعہ ایک نیکی کی تھی، (اس کی تفصیل یہ ہے کہ) میرے کچھ مزدور کام کرتے تھے، میرے عمال میرے پاس آئے، میں نے ہر ایک کو معین مزدوری دی۔ ایک دن ایک آدمی نصف النھار کے وقت میرے پاس آیا، میں نے اسے مزدوری پر تو لگا دیا، لیکن (نصف دن) کی وجہ سے دوسرے مزدوروں کی مزدوری کے نصف کے بقدر دینے کا طے کیا، لیکن اس نے نصف دن میں اتنا کام کیا، جو دوسروں نے پورے دن میں کیا تھا، اس لیے میں نے ذمہ داری سمجھی کہ اسے اس کے دوسرے ساتھیوں کی طرح پوری اجرت دوں، کیونکہ اس نے اپنا کام کرنے میں پوری محنت کی ہے۔ ان میں سے ایک آدمی نے (اعتراض کرتے ہوئے) کہا: کیا تو اسے وہی اجرت دے رہا ہے جو مجھے دی، حالانکہ اس نے نصف دن کام کیا ہے؟ میں نے کہا: اللہ کے بندے! جو کچھ تجھ سے تیرے بارے میں طے ہوا تھا، اس میں سے کوئی کمی نہیں کی، یہ میرا مال ہے، میں جیسے چاہوں اس کے بارے میں فیصلہ کر سکتا ہوں۔ (میری اس بات سے) اسے غصہ آیا اور وہ اجرت چھوڑ کر چلا گیا۔ میں نے گھر کے ایک کونے میں اس کا حق رکھ دیا، پھر میرے پاس سے گائے گزری، میں نے اس کی اجرت والے مال سے دودھ چھڑایا ہوا گائے کا بچہ خرید لیا، (اس کی نسل بڑھتی رہی اور) گائیوں میں اضافہ ہوتا رہا۔ ایک دن وہی مزدور میرے پاس سے گزرا، وہ بوڑھا اور کمزور ہو چکا تھا، اس لئے میں نے اسے نہیں پہچانا۔ اس نے کہا: میرا حق تیرے پاس ہے، جب اس نے مجھے یاد کرایا تو بات میری سمجھ میں آ گئی۔ میں نے کہا: میں تیری ہی تلاش میں تھا، میں نے اس پر (ساری گائیں) پیش کرتے ہوئے کہا: یہ تیرا حق ہے۔ اس نے کہا: او اللہ کے بندے! میرے ساتھ مذاق نہ کر، اگر میرے ساتھ ہمدردی نہیں کر سکتا تو میرا حق تو مجھے دے دے۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں تیرے ساتھ مذاق نہیں کر رہا، یہ تیرا ہی حق ہے، اس میں کوئی چیز میری نہیں ہے، سو میں نے سارا مال اسے دے دیا۔ اے اللہ! اگر یہ نیکی میں نے تیری ذات کے لئے کی ہے تو اس سے ہمارے لئے گنجائش پیدا کر۔ (اس دعا کی وجہ سے) پتھر اتنا ہٹ (یا پھٹ) گیا کہ باہر کا ماحول نظر آنے لگ گیا۔ دوسرے نے کہا: میں نے بھی ایک دفعہ ایک نیکی کی تھی۔ (تفصیل یہ ہے کہ) میرے پاس زائد از ضرورت مال تھا، لوگ شدت میں مبتلا ہو گئے، ایک عورت میرے پاس کچھ مال طلب کرنے کے لئے آئی۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! تیری شرمگاہ کے علاوہ اس کی کوئی قیمت نہیں۔ اس نے میرے مطالبے کا انکار کیا اور چلی گئی۔ اس نے یہ بات اپنے خاوند کو بتلائی تو اس نے کہا: تو اسے اپنا نفس دے دے (یعنی اسے زنا کرنے دے) اور (کچھ لے کر) اپنے بچوں کی ضرورت پورا کر۔ وہ آئی اور مجھ پر اللہ تعالی کی قسم کھائی، لیکن میں نے (پہلے کی طرح) انکار ہی کیا اور کہا: پہلے اپنا نفس فروخت کرنا ہو گا (یعنی اپنی عزت لوٹانی ہو گی)۔ جب اس نے یہ صورتحال دیکھی تو اپنے آپ کو میرے سپرد کر دیا۔ جب میں نے اسے ننگا کیا اور بدکاری کا ارادہ کر لیا تو اس پر میرے نیچے کپکپی طاری ہو گئی۔ میں نے اسے کہا: تجھے کیا ہو گیا ہے؟ اس نے کہا: میں جہانوں کے پالنہار اللہ سے ڈر رہی ہوں۔ میں نے اس سے کہا: تو تنگدستی کے باوجود اس سے ڈرتی ہے اور میں خوشحالی میں بھی نہیں ڈرتا۔ پس میں نے اسے چھوڑ دیا اور ننگا کرنے کے جرم میں جو کچھ مجھ پر عائد ہوتا تھا، میں نے اسے دے دیا۔ اے اللہ! اگر میں نے یہ نیکی تیری ذات کے لئے کی تھی تو آج اس (چٹان) کو ہٹا دے۔ (اس دعا کی وجہ سے) وہ مزید ہٹ گئی، حتی کے وہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچاننے لگ گئے۔ تیسرے نے کہا: میں نے بھی ایک نیکی کی تھی۔ (اس کی تفصیل یہ ہے کہ) میرے والدین بوڑھے تھے اور میرے پاس بکریاں تھیں۔ میں اپنے والدین کو کھانا کھلاتا اور دودھ پلاتا تھا اور اپنی بکریوں کی طرف لوٹ جاتا تھا۔ ایک دن بارش نے مجھے (وقت پر) لوٹنے سے روک لیا، وہیں شام ہو گئی۔ جب میں گھر پہنچا، برتن لیا، بکریوں کا دودھ دوہا اور اپنے والدین کے پاس لے گیا، لیکن وہ (میرے پہنچنے سے پہلے) سو چکے تھے۔ ایک طرف انہیں بیدار کرنا مجھ پر گراں گزر رہا تھا اور دوسری طرف بکریوں کو (یوں ہی بے حفاظتا چھوڑ آنا) پریشان کر رہا تھا۔ بہرحال میں برتن تھامے ان کے انتظار میں بیٹھا رہا، حتی کے وہ صبح کو بیدار ہوئے اور میں نے ان کو دودھ پلایا۔ اے اللہ! اگر میں نے یہ نیکی تیرے لئے کی تھی تو (اس چٹان کو) ہٹا دے۔ سیدنا نعمان کہتے ہیں: گویا کہ میں یہ الفاظ اب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن رہا ہوں، اللہ تعالی نے (اس پتھر کو غار کے دھانے سے) ہٹا دیئے اور وہ نکل گئے۔“[سلسله احاديث صحيحه/الايمان والتوحيد والدين والقدر/حدیث: 151]