الحمدللہ! صحيح ابن خزيمه پیش کر دی گئی ہے۔    


صحيح البخاري کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:


صحيح البخاري
كِتَاب الْكُسُوف
کتاب: سورج گہن کے متعلق بیان
10. بَابُ صَلاَةِ النِّسَاءِ مَعَ الرِّجَالِ فِي الْكُسُوفِ:
10. باب: سورج گرہن میں عورتوں کا مردوں کے ساتھ نماز پڑھنا۔
حدیث نمبر: 1053
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَال: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ امْرَأَتِهِ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهَا قَالَتْ: أَتَيْتُ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ خَسَفَتِ الشَّمْسُ فَإِذَا النَّاسُ قِيَامٌ يُصَلُّونَ وَإِذَا هِيَ قَائِمَةٌ تُصَلِّي، فَقُلْتُ: مَا لِلنَّاسِ، فَأَشَارَتْ بِيَدِهَا إِلَى السَّمَاءِ، وَقَالَتْ: سُبْحَانَ اللَّهِ، فَقُلْتُ: آيَةٌ فَأَشَارَتْ، أَيْ نَعَمْ، قَالَتْ: فَقُمْتُ حَتَّى تَجَلَّانِي الْغَشْيُ فَجَعَلْتُ أَصُبُّ فَوْقَ رَأْسِي الْمَاءَ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: مَا مِنْ شَيْءٍ كُنْتُ لَمْ أَرَهُ إِلَّا قَدْ رَأَيْتُهُ فِي مَقَامِي هَذَا حَتَّى الْجَنَّةَ وَالنَّارَ، وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ مِثْلَ أَوْ قَرِيبًا مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ لَا أَدْرِي أَيَّتَهُمَا، قَالَتْ أَسْمَاءُ: يُؤْتَى أَحَدُكُمْ فَيُقَالُ لَهُ: مَا عِلْمُكَ بِهَذَا الرَّجُلِ؟ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ أَوِ الْمُوقِنُ لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ، قَالَتْ أَسْمَاءُ: فَيَقُولُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى، فَأَجَبْنَا وَآمَنَّا وَاتَّبَعْنَا، فَيُقَالُ لَهُ نَمْ صَالِحًا فَقَدْ عَلِمْنَا إِنْ كُنْتَ لَمُوقِنًا وَأَمَّا الْمُنَافِقُ أَوِ الْمُرْتَابُ لَا أَدْرِي أَيَّتَهُمَا"، قَالَتْ أَسْمَاءُ: فَيَقُولُ لَا أَدْرِي، سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا فَقُلْتُهُ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کی بیوی فاطمہ بنت منذر نے، انہیں اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے، انہوں نے کہا کہ جب سورج کو گرہن لگا تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر آئی۔ اچانک لوگ کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے اور عائشہ رضی اللہ عنہا بھی نماز میں شریک تھی میں نے پوچھا کہ لوگوں کو بات کیا پیش آئی؟ اس پر آپ نے آسمان کی طرف اشارہ کر کے سبحان اللہ کہا۔ پھر میں نے پوچھا کیا کوئی نشانی ہے؟ اس کا آپ نے اشارہ سے ہاں میں جواب دیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں بھی کھڑی ہو گئی۔ لیکن مجھے چکر آ گیا اس لیے میں اپنے سر پر پانی ڈالنے لگی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ وہ چیزیں جو کہ میں نے پہلے نہیں دیکھی تھیں اب انہیں میں نے اپنی اسی جگہ سے دیکھ لیا۔ جنت اور دوزخ تک میں نے دیکھی اور مجھے وحی کے ذریعہ بتایا گیا ہے کہ تم قبر میں دجال کے فتنہ کی طرح یا (یہ کہا کہ) دجال کے فتنہ کے قریب ایک فتنہ میں مبتلا ہو گے۔ مجھے یاد نہیں کہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کیا کہا تھا آپ نے فرمایا کہ تمہیں لایا جائے گا اور پوچھا جائے گا کہ اس شخص (مجھ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بارے میں تم کیا جانتے ہو۔ مومن یا یہ کہا کہ یقین کرنے والا (مجھے یاد نہیں کہ ان دو باتوں میں سے اسماء رضی اللہ عنہا نے کون سی بات کہی تھی) تو کہے گا یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے صحیح راستہ اور اس کے دلائل پیش کئے اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات قبول کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کیا تھا۔ اس پر اس سے کہا جائے گا کہ تو مرد صالح ہے پس آرام سے سو جاؤ ہمیں تو پہلے ہی معلوم تھا کہ تو ایمان و یقین والا ہے۔ منافق یا شک کرنے والا (مجھے معلوم نہیں کہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کیا کہا تھا) وہ یہ کہے گا کہ مجھے کچھ معلوم نہیں میں نے لوگوں سے ایک بات سنی تھی وہی میں نے بھی کہی (آگے مجھ کو کچھ حقیقت معلوم نہیں)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْكُسُوف/حدیث: 1053]