2. باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان اللہ تعالیٰ کا فرمان ”اے ایمان والو! تم اپنے (خاص) گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں مت داخل ہو جب تک کہ اجازت نہ حاصل کر لو اور ان کے رہنے والوں کو سلام کر لو۔ تمہارے حق میں یہی بہتر ہے تاکہ تم خیال رکھو۔ پھر اگر ان میں تمہیں کوئی (آدمی) نہ معلوم ہو تو بھی ان میں نہ داخل ہو جب تک کہ تم کو اجازت نہ مل جائے اور اگر تم سے کہہ دیا جائے کہ لوٹ جاؤ تو (بلاخفتگی) واپس لوٹ آیا کرو۔ یہی تمہارے حق میں زیادہ صفائی کی بات ہے اور اللہ تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہے۔ تم پر کوئی گناہ اس میں نہیں ہے کہ تم ان مکانات میں داخل ہو جاؤ (جن میں) کوئی رہتا نہ ہو اور ان میں تمہارا کچھ مال ہو اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ تم چھپاتے ہو“۔
اور سعید بن ابی الحسن نے (اپنے بھائی) حسن بصری سے کہا کہ عجمی عورتیں سینہ اور سر کھولے رہتی ہیں۔ تو حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا کہ ان سے اپنی نگاہ پھیر لو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”مومنوں سے کہہ دیجئیے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔“ قتادہ نے کہا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جو ان کے لیے جائز نہیں ہے (اس سے حفاظت کریں) اور آپ کہہ دیجئیے ایمان والیوں سے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنے سنگار ظاہر نہ ہونے دیں۔ «خائنة الأعين» سے مراد اس چیز کی طرف دیکھنا ہے، جس سے منع کیا گیا ہے۔ زہری نے نابالغ لڑکیوں کو دیکھنے کے سلسلہ میں کہا کہ ان کی بھی کسی ایسی چیز کی طرف نظر نہ کرنی چاہئے جسے دیکھنے سے شہوت نفسانی پیدا ہو سکتی ہو۔ خواہ وہ لڑکی چھوٹی ہی کیوں نہ ہو۔ عطاء نے ان لونڈیوں کی طرف نظر کرنے کو مکروہ کہا ہے، جو مکہ میں بیچی جاتی ہیں۔ ہاں اگر انہیں خریدنے کا ارادہ ہو تو جائز ہے۔ (الحمدللہ اب مکہ میں ایسے بازار ختم ہو چکے ہیں)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ/حدیث: Q6228]
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں سلیمان بن یسار نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کو قربانی کے دن اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھایا۔ وہ خوبصورت گورے مرد تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو مسائل بتانے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ اسی دوران میں قبیلہ خثعم کی ایک خوبصورت عورت بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھنے آئی۔ فضل بھی اس عورت کو دیکھنے لگے۔ اس کا حسن و جمال ان کو بھلا معلوم ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مڑ کر دیکھا تو فضل اسے دیکھ رہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ پیچھے لے جا کر فضل کی ٹھوڑی پکڑی اور ان کا چہرہ دوسری طرف کر دیا۔ پھر اس عورت نے کہا: یا رسول اللہ! حج کے بارے میں اللہ کا جو اپنے بندوں پر فریضہ ہے وہ میرے والد پر لاگو ہوتا ہے، جو بہت بوڑھے ہو چکے ہیں اور سواری پر سیدھے نہیں بیٹھ سکتے۔ کیا اگر میں ان کی طرف سے حج کر لوں تو ان کا حج ادا ہو جائے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں ہو جائے گا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ/حدیث: 6228]
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو ابوعامر نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”راستوں پر بیٹھنے سے بچو! صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہماری یہ مجالس تو بہت ضروری ہیں، ہم وہیں روزمرہ گفتگو کیا کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا جب تم ان مجلسوں میں بیٹھنا ہی چاہتے ہو تو راستے کا حق ادا کیا کرو یعنی راستے کو اس کا حق دو۔ صحابہ نے عرض کیا: راستے کا حق کیا ہے یا رسول اللہ! فرمایا (غیر محرم عورتوں کو دیکھنے سے) نظر نیچی رکھنا، راہ گیروں کو نہ ستانا، سلام کا جواب دینا، بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ/حدیث: 6229]