ہم سے محمد بن ابی بکر مقدمی نے بیان کیا کہا ہم سے فضیل بن سلیمان نے، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے، کہا میں نے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ وہ (مدینہ سے مکہ تک) راستے میں کئی جگہوں کو ڈھونڈھ کر وہاں نماز پڑھتے اور کہتے کہ ان کے باپ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی ان مقامات پر نماز پڑھا کرتے تھے۔ اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان مقامات پر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور موسیٰ بن عقبہ نے کہا کہ مجھ سے نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق بیان کیا کہ وہ ان مقامات پر نماز پڑھا کرتے تھے۔ اور میں نے سالم سے پوچھا تو مجھے خوب یاد ہے کہ انہوں نے بھی نافع کے بیان کے مطابق ہی تمام مقامات کا ذکر کیا۔ فقط مقام شرف روحاء کی مسجد کے متعلق دونوں نے اختلاف کیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 483]
ہم سے ابراہیم بن المنذر حزامی نے بیان کیا، کہا ہم سے انس بن عیاض نے، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے نافع سے، ان کو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب عمرہ کے قصد سے تشریف لے گئے اور حجۃ الوداع کے موقعہ پر جب حج کے لیے نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالحلیفہ میں قیام فرمایا۔ ذوالحلیفہ کی مسجد کے قریب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ببول کے درخت کے نیچے اترے اور جب آپ کسی جہاد سے واپس ہوتے اور راستہ ذوالحلیفہ سے ہو کر گزرتا یا حج یا عمرہ سے واپسی ہوتی تو آپ وادی عتیق کے نشیبی علاقہ میں اترتے، پھر جب وادی کے نشیب سے اوپر چڑھتے تو وادی کے بالائی کنارے کے اس مشرقی حصہ پر پڑاؤ ہوتا جہاں کنکریوں اور ریت کا کشادہ نالا ہے۔ (یعنی بطحاء میں) یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو صبح تک آرام فرماتے۔ یہ مقام اس مسجد کے قریب نہیں ہے جو پتھروں کی بنی ہے، آپ اس ٹیلے پر بھی نہیں ہوتے جس پر مسجد بنی ہوئی ہے۔ وہاں ایک گہرا نالہ تھا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما وہیں نماز پڑھتے۔ اس کے نشیب میں ریت کے ٹیلے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں نماز پڑھا کرتے تھے۔ کنکریوں اور ریت کے کشادہ نالہ کی طرف سے سیلاب نے آ کر اس جگہ کے آثار و نشانات کو پاٹ دیا ہے، جہاں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نماز پڑھا کرتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 484]
اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نافع سے یہ بھی بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ نماز پڑھی جہاں اب شرف روحاء کی مسجد کے قریب ایک چھوٹی مسجد ہے، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس جگہ کی نشاندہی کرتے تھے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تھی۔ کہتے تھے کہ یہاں تمہارے دائیں طرف جب تم مسجد میں (قبلہ رو ہو کر) نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے ہو۔ جب تم (مدینہ سے) مکہ جاؤ تو یہ چھوٹی سی مسجد راستے کے دائیں جانب پڑتی ہے۔ اس کے اور بڑی مسجد کے درمیان ایک پتھر کی مار کا فاصلہ ہے یا اس سے کچھ کم زیادہ۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 485]
اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس چھوٹی پہاڑی کی طرف نماز پڑھتے جو روحاء کے آخر کنارے پر ہے اور یہ پہاڑی وہاں ختم ہوتی ہے جہاں راستے کا کنارہ ہے۔ اس مسجد کے قریب جو اس کے اور روحاء کے آخری حصے کے بیچ میں ہے مکہ کو جاتے ہوئے۔ اب وہاں ایک مسجد بن گئی ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس مسجد میں نماز نہیں پڑھتے تھے بلکہ اس کو اپنے بائیں طرف مقابل میں چھوڑ دیتے اور آگے بڑھ کر خود پہاڑی عرق الطبیہ کی طرف نماز پڑھتے تھے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب روحاء سے چلتے تو ظہر اس وقت تک نہ پڑھتے جب تک اس مقام پر نہ پہنچ جاتے۔ جب یہاں آ جاتے تو ظہر پڑھتے، اور اگر مکہ سے آتے ہوئے صبح صادق سے تھوڑی دیر پہلے یا سحر کے آخر میں وہاں سے گزرتے تو صبح کی نماز تک وہیں آرام کرتے اور فجر کی نماز پڑھتے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 486]
اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم راستے کے دائیں طرف مقابل میں ایک گھنے درخت کے نیچے وسیع اور نرم علاقہ میں قیام فرماتے جو قریہ رویثہ کے قریب ہے۔ پھر آپ اس ٹیلہ سے جو رویثہ کے راستے سے تقریباً دو میل کے فاصلے پر ہے چلتے تھے۔ اب اس درخت کا اوپر کا حصہ ٹوٹ گیا ہے۔ اور درمیان میں سے دوہرا ہو کر جڑ پر کھڑا ہے۔ اس کی جڑ میں ریت کے بہت سے ٹیلے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 487]
اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نافع سے یہ بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریہ عرج کے قریب اس نالے کے کنارے نماز پڑھی جو پہاڑ کی طرف جاتے ہوئے پڑتا ہے۔ اس مسجد کے پاس دو یا تین قبریں ہیں، ان قبروں پر اوپر تلے پتھر رکھے ہوئے ہیں، راستے کے دائیں جانب ان بڑے پتھروں کے پاس جو راستے میں ہیں۔ ان کے درمیان میں ہو کر نماز پڑھی، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما قریہ عرج سے سورج ڈھلنے کے بعد چلتے اور ظہر اسی مسجد میں آ کر پڑھا کرتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 488]
اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نافع سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے راستے کے بائیں طرف ان گھنے درختوں کے پاس قیام فرمایا جو ہرشی پہاڑ کے نزدیک نشیب میں ہیں۔ یہ ڈھلوان جگہ ہرشی کے ایک کنارے سے ملی ہوئی ہے۔ یہاں سے عام راستہ تک پہنچنے کے لیے تیر کی مار کا فاصلہ ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس بڑے درخت کی طرف نماز پڑھتے تھے جو ان تمام درختوں میں راستے سے سب سے زیادہ نزدیک ہے اور سب سے لمبا درخت بھی یہی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 489]
اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نافع سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس نالے میں اترا کرتے تھے جو وادی مرالظہران کے نشیب میں ہے۔ مدینہ کے مقابل جب کہ مقام صفراوات سے اترا جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس ڈھلوان کے بالکل نشیب میں قیام کرتے تھے۔ یہ راستے کے بائیں جانب پڑتا ہے جب کوئی شخص مکہ جا رہا ہو (جس کو اب بطن مرو کہتے ہیں) راستے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی منزل کے درمیان صرف ایک پتھر ہی کے مار کا فاصلہ ہوتا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 490]
اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نافع سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مقام ذی طویٰ میں قیام فرماتے اور رات یہیں گزارا کرتے تھے اور صبح ہوتی تو نماز فجر یہیں پڑھتے۔ مکہ جاتے ہوئے۔ یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کی جگہ ایک بڑے سے ٹیلے پر تھی۔ اس مسجد میں نہیں جواب وہاں بنی ہوئی ہے بلکہ اس سے نیچے ایک بڑا ٹیلا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 491]
اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نافع سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پہاڑ کے دونوں کونوں کا رخ کیا جو اس کے اور جبل طویل کے درمیان کعبہ کی سمت ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مسجد کو جو اب وہاں تعمیر ہوئی ہے اپنی بائیں طرف کر لیتے ٹیلے کے کنارے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کی جگہ اس سے نیچے سیاہ ٹیلے پر تھی ٹیلے سے تقریباً دس ہاتھ چھوڑ کر پہاڑ کی دونوں گھاٹیوں کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے جو تمہارے اور کعبہ کے درمیان ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 492]