اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے غلے سے مر جانے والے شکار کے متعلق کہا کہ وہ بھی «موقوذة»(بوجھ کے دباؤ سے مرا ہوا ہے جو حرام ہے) اور سالم، قاسم، مجاہد، ابراہیم، عطاء اور امام حسن بصری رحمہم اللہ اجمعین نے اس کو مکروہ رکھا ہے۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ گاؤں اور شہروں میں غلے چلانے کو مکروہ سمجھتے تھے اور ان کے سوا دوسری جگہوں (میدان، جنگل وغیرہ) میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الذَّبَائِحِ وَالصَّيْدِ/حدیث: Q5476]
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن ابی السفر نے، ان سے شعبی نے کہا کہ میں نے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پر کے تیر یا لکڑی گز سے شکار کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم اس کی نوک سے شکار کو مار لو تو اسے کھاؤ لیکن اگر اس کی عرض کی طرف سے شکار کو لگے اور اس سے وہ مر جائے تو وہ «موقوذة»(مردار) ہے اسے نہ کھاؤ۔ میں نے سوال کیا کہ میں اپنا کتا بھی (شکار کے لیے) دوڑاتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم اپنے کتے پر بسم اللہ پڑھ کر شکار کے پیچھے دوڑاؤ تو وہ شکار کھا سکتے ہو۔ میں نے پوچھا اور اگر وہ کتا شکار میں سے کھا لے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر نہ کھاؤ کیونکہ وہ شکار اس نے تمہارے لیے نہیں پکڑا تھا، صرف اپنے لیے پکڑا تھا۔ میں نے پوچھا میں بعض وقت اپنا کتا چھوڑتا ہوں اور بعد میں اس کے ساتھ دوسرا کتا بھی پاتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر (اس کا شکار) نہ کھاؤ کیونکہ تم نے بسم اللہ صرف اپنے کتے پر پڑھی ہے، دوسرے پر نہیں پڑھی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الذَّبَائِحِ وَالصَّيْدِ/حدیث: 5476]