ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ میں نے سعد بن عبیدہ سے سنا، ان سے ابوعبدالرحمٰن سلمی بیان کرتے تھے کہ علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازے میں تشریف رکھتے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چیز لی اور اس سے زمین کریدنے لگے اور فرمایا، تم میں کوئی ایسا شخص نہیں جس کا جہنم کا ٹھکانا یا جنت کا ٹھکانا لکھا نہ جا چکا ہو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! تو پھر ہم کیوں اپنی تقدیر پر بھروسہ نہ کر لیں اور نیک عمل کرنا چھوڑ دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نیک عمل کرو، ہر شخص کو ان اعمال کی توفیق دی جاتی ہے جن کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے جو شخص نیک ہو گا اسے نیکوں کے عمل کی توفیق ملی ہوتی ہے اور جو بدبخت ہوتا ہے اسے بدبختوں کے عمل کی توفیق ملتی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «فأما من أعطى واتقى * وصدق بالحسنى» آخر تک پڑھی یعنی ”سو جس نے دیا اور اللہ سے ڈرا اور اچھی بات کو سچا سمجھا، سو ہم اس کے لیے نیک عملوں کو آسان کر دیں گے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4949]