لفظ «هل أتى» کا معنی آ چکا۔ «هل» کا لفظ کبھی تو انکار کے لیے آتا ہے، کبھی تحقیق کے لیے ( «قد» کے معنی میں) یہاں «قد» ہی کے معنی میں ہے۔ یعنی ایک زمانہ انسان پر ایسا آ چکا ہے کہ وہ ذکر کرنے کے قابل چیز نہ تھا، یہ وہ زمانہ ہے جب مٹی سے اس کا پتلا بنایا گیا تھا۔ اس وقت تک جب روح اس میں پھونکی گئی۔ «أمشاج» ملی ہوئی چیزیں یعنی مرد اور عورت دونوں کی منی اور خون اور پھٹکی اور جب کوئی چیز دوسری چیز سے ملا دی جائے تو کہتے ہیں «مشيج» جیسے «خليط.» یعنی «ممشوج» اور «مخلوط» بعضوں نے یوں پڑھا ہے «سلاسلا وأغلالا»(بعضوں نے «سلاسلا وأغلالا» بغیر تنوین کے پڑھا ہے) انہوں نے «سلاسلا» کی تنوین جائز نہیں رکھی۔ «مستطير» اس کی برائی پھیلی ہوئی۔ «قمطرير» سخت۔ عرب لوگ کہتے ہیں «يوم قمطرير ويوم قماطر» یعنی سخت مصیبت کا دن۔ «عبوس» اور «قمطرير» اور «قماطر» اور «قصيب» ان چاروں کا معنی وہ دن جس پہ سخت مصیبت آئے اور معمر بن عبیدہ نے کہا «شددنا أسرهم» معنی یہ ہے کہ ہم نے ان کی خلقت خوب مضبوط کی ہے۔ عرب لوگ جس کو تو مضبوط باندھے جیسے پالان، ہودج وغیرہ اس کو «مأسور» کہتے ہیں۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز فجر میں) اکثر پہلی رکعت میں سورۃ الم سجدہ اور دوسری رکعت میں سورۃ «هل أتى على الإنسان» کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4930-2]