«الخصاصة» کے معنی فاقہ کے ہیں۔ «المفلحون» ہمیشہ کامیاب رہنے والے۔ «الفلاح» باقی رہنا۔ «حي على الفلاح» بقا کی طرف جلد آؤ یعنی اس کام کی طرف جس سے حیات ابدی حاصل ہو اور امام حسن بصری نے کہا «لا يجيدون في صدورهم»، «حاجة» میں «حاجت» سے «حسد» مراد ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4889]
مجھ سے یعقوب بن ابراہیم بن کثیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسامہ نے بیان کیا، کہا ہم سے فضیل بن غزوان نے بیان کیا، ان سے ابوحازم اشجعی نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک صاحب خود (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ) حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں فاقہ سے ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ازواج مطہرات کے پاس بھیجا (کہ وہ آپ کی دعوت کریں) لیکن ان کے پاس کوئی چیز کھانے کی نہیں تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا کوئی شخص ایسا نہیں جو آج رات اس مہمان کی میزبانی کرے؟ اللہ اس پر رحم کرے گا۔ اس پر ایک انصاری صحابی (ابوطلحہ) کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ آج میرے مہمان ہیں پھر وہ انہیں اپنے ساتھ گھر لے گئے اور اپنی بیوی سے کہا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان ہیں، کوئی چیز ان سے بچا کے نہ رکھنا۔ بیوی نے کہا اللہ کی قسم میرے پاس اس وقت بچوں کے کھانے کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہے۔ انصاری صحابی نے کہا اگر بچے کھانا مانگیں تو انہیں سلا دو اور آؤ یہ چراغ بھی بجھا دو، آج رات ہم بھوکے ہی رہ لیں گے۔ بیوی نے ایسا ہی کیا۔ پھر وہ انصاری صحابی صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں (انصاری صحابی) اور ان کی بیوی (کے عمل) کو پسند فرمایا۔ یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ) اللہ تعالیٰ مسکرایا پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ويؤثرون على أنفسهم ولو كان بهم خصاصة» یعنی اور اپنے سے مقدم رکھتے ہیں اگرچہ خود فاقہ میں ہی ہوں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4889]