علی علیہ السلام نے کہا کہ «الذاريات» سے مراد ہوائیں ہیں۔ ان سے غیر نے کہا کہ «تذروه» کا معنی یہ ہے کہ اس کو بکھیر دے (یہ لفظ سورۃ الکہف میں ہے) «الرياح» کی مناسبت سے یہاں لایا گیا۔ «وفي أنفسكم افلا تبصرون» یعنی خود تمہاری ذات میں نشانیاں ہیں کیا تم نہیں دیکھتے کہ کھانا پینا ایک راستے منہ سے ہوتا ہے لیکن وہ فضلہ بن کر دوسرے راستوں سے نکلتا ہے۔ «فراغ» لوٹ آیا (یا چپکے سے) چلا آیا۔ «فصكت» یعنی مٹھی باندھ کر اپنے ماتھے پر ہاتھ کو مارا۔ «الرميم» زمین کی گھاس جب خشک ہو جائے اور روند دی جائے۔ «لموسعون» کے معنی ہم نے اس کو کشادہ اور وسیع کیا ہے۔ (اور سورۃ البقرہ میں جو ہے) «على الموسع قدره» یہاں «موسع» کے معنی زور طاقت والا ہے۔ «زوجين» یعنی نر و مادہ یا الگ الگ رنگ یا الگ الگ مزے کی جیسے میٹھی کھٹی یہ دو قسمیں ہیں۔ «ففروا إلى الله» یعنی اللہ کی معصیت سے اس کی اطاعت کی طرف بھاگ کر آؤ۔ «إلا ليعبدون» یعنی جِن و انس میں جتنی بھی نیک روحیں ہیں انہیں میں نے صرف اپنی توحید کے لیے پیدا کیا۔ بعضوں نے کہا جِنوں اور آدمیوں کو اللہ تعالیٰ نے پیدا تو اسی مقصد سے کیا تھا کہ وہ اللہ کی توحید کو مانیں لیکن کچھ نے مانا اور کچھ نے نہیں مانا۔ معتزلہ کے لیے اس آیت میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ «الذنوب» کے معنی بڑے ڈول کے ہیں۔ مجاہد نے فرمایا کہ «ذنوبا» بمعنی راستہ ہے۔ مجاہد نے کہا کہ «صرة» کے معنی چیخنا۔ «ذنوبا» کے معنی راستہ اور طریق کے ہیں۔ «العقيم» کے معنی جس کو بچہ نہ پیدا ہو بانجھ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ «الحبك» سے آسمان کا خوبصورت برابر ہونا مراد ہے۔ «في غمرة» یعنی اپنی گمراہی میں پڑے اوقات گزارتے ہیں۔ اوروں نے کہا «تواصوا» کا معنی یہ ہے کہ یہ بھی ان کے موافق کہنے لگے۔ «مسومة» نشان کئے گئے۔ یہ «سيما.» سے نکلا ہے جس کے معنی نشانی کے ہیں۔ «قتل الخراصون» یعنی جھوٹے لعنت کئے گئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4853-2]