الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
39. سورة الزُّمَرِ:
39. باب: سورۃ الزمر کی تفسیر میں۔
حدیث نمبر: Q4810
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ: يُجَرُّ عَلَى وَجْهِهِ فِي النَّارِ، وَهُوَ قَوْلُهُ تَعَالَى: أَفَمَنْ يُلْقَى فِي النَّارِ خَيْرٌ أَمْ مَنْ يَأْتِي آمِنًا: يَوْمَ الْقِيَامَةِ غَيْرَ، ذِي عِوَجٍ: لَبْسٍ، وَرَجُلًا سَلَمًا لِرَجُلٍ: مَثَلٌ لِآلِهَتِهِمُ الْبَاطِلِ وَالْإِلَهِ الْحَقِّ، وَيُخَوِّفُونَكَ بِالَّذِينَ مِنْ دُونِهِ: بِالْأَوْثَانِ خَوَّلْنَا أَعْطَيْنَا، وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ: الْقُرْآنُ، وَصَدَّقَ بِهِ: الْمُؤْمِنُ يَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يَقُولُ: هَذَا الَّذِي أَعْطَيْتَنِي عَمِلْتُ بِمَا فِيهِ، وَقَالَ غَيْرُهُ: مُتَشَاكِسُونَ: الرَّجُلُ الشَّكِسُ الْعَسِرُ لَا يَرْضَى بِالْإِنْصَافِ وَرَجُلًا سِلْمًا، وَيُقَالُ: سَالِمًا صَالِحًا، اشْمَأَزَّتْ: نَفَرَتْ، بِمَفَازَتِهِمْ: مِنَ الْفَوْزِ، حَافِّينَ: أَطَافُوا بِهِ مُطِيفِينَ بِحِفَافَيْهِ بِجَوَانِبِهِ، مُتَشَابِهًا: لَيْسَ مِنَ الْاشْتِبَاهِ وَلَكِنْ يُشْبِهُ بَعْضُهُ بَعْضًا فِي التَّصْدِيقِ.
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا «يتقي بوجهه‏» سے یہ مراد ہے کہ منہ کے بل دوزخ میں گھسیٹا جائے گا جیسے اس آیت میں فرمایا «أفمن يلقى في النار خير أم من يأتي آمنا‏» الایۃ۔ «ذي عوج‏» کے معنی شبہ والا۔ «ورجلا سلما لرجل‏» یہ ایک مثال ہے مشرکین کے معبودان باطلہ کی اور معبود برحق کی۔ «ويخوفونك بالذين من دونه‏» میں «من دونه‏» سے مراد بت ہیں (یعنی مشرکین اپنے جھوٹے معبودوں سے تجھ کو ڈراتے ہیں)۔ «خولنا» کے معنی ہم نے دیا۔ «والذي جاء بالصدق‏» سے قرآن مراد ہے اور «صدق‏» سے مسلمان مراد ہے جو قیامت کے دن پروردگار کے سامنے آ کر عرض کرے گا یہی قرآن ہے جو تو نے دنیا میں مجھ کو عنایت فرمایا تھا، میں نے اس پر عمل کیا۔ «متشاكسون‏»، «شكس» سے نکلا ہے «شكس» بدمزاج تکراری آدمی کو کہتے ہیں جو انصاف کی بات پسند نہ کرے۔ «سلما» اور «سالما» اچھے پورے آدمی کو کہتے ہیں۔ «اشمأزت‏» کے معنی نفرت کرتے ہیں، چڑتے ہیں۔ «بمفازتهم‏»، «فوز‏.‏‏» سے نکلا ہے مراد کامیابی ہے۔ «حافين‏» کے معنی گردا گرد اس کے چاروں طرف۔ «متشابها‏»، «اشتباه» سے نہیں بلکہ «تشابه» سے نکلا ہے یعنی اس کی ایک آیت دوسری آیت کی تائید و تصدیق کرتی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4810]