ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «ثم لم تكن فتنتهم» کا معنی پھر ان کا اور کوئی عذر نہ ہو گا۔ «معروشات» کا معنی ٹٹیوں پر چڑھائے ہوئے جیسے انگور وغیرہ (جن کی بیل ہوتی ہے)۔ «حمولة» کا معنی «لدو» یعنی بوجھ لادنے کے جانور۔ «وللبسنا» کا معنی ہم شبہ ڈال دیں گے۔ «ينأون» کا معنی دور ہو جاتے ہیں۔ «تبسل» کا معنی رسوا کیا جائے۔ «أبسلوا» رسوا کئے گئے۔ «باسطو أيديهم» میں «بسط» کے معنی مارنا۔ «استكثرتم» یعنی تم نے بہتوں کو گمراہ کیا۔ «وجعلوا لله من ثمراتهم ومالهم نصيبا» یعنی انہوں نے اپنے پھلوں اور مالوں میں اللہ کا ایک حصہ اور شیطان اور بتوں کا ایک حصہ ٹھہرایا۔ «اكنة»، «كنان» کی جمع ہے یعنی پردہ۔ «أما اشتملت» یعنی کیا مادوں کی پیٹ میں نر مادہ نہیں ہوتے پھر تم ایک کو حرام ایک کو حلال کیوں بناتے ہو۔ اور «وما مسفوحا» یعنی بہایا گیا خون۔ «صدف» کا معنی منہ پھیرا۔ «أبلسوا» کا معنی ناامید ہوئے۔ «فاذاهم مبلسون» میں اور «أبسلوا بما كسبوا» میں یہ معنی ہے کہ ہلاکت کے لیے سپرد کئے گئے۔ «سرمدا» کا معنی ہمیشہ۔ «استهوته» کا معنی گمراہ کیا۔ «يمترون» کا معنی شک کرتے ہو۔ «وقر» کا معنی بوجھ (جس سے کان بہرا ہو)۔ اور «وقر» بکسرہ واؤ معنی بوجھ جو جانور پر لادا جائے۔ «أساطير»، «أسطورة» اور «إسطارة» کی جمع ہے یعنی واہیات اور لغو باتیں۔ «البأساء»، «بأس» سے نکلا ہے یعنی سخت مایوس سے یعنی تکلیف اور محتاجی نیز «بؤس.» سے بھی آتا ہے اور محتاج۔ «جهرة» کھلم کھلا۔ «صور»( «يوم ينقخ فى الصور») میں «صورت» کی جمع جیسے «سور»، «سورة» کی جمع۔ «ملكوت» سے «ملك» یعنی سلطنت مراد ہے۔ جیسے «رهبوت» اور «رحموت» مثل ہے «رهبوت» یعنی ڈر۔ «رحموت»(مہربانی) سے بہتر ہے اور کہتے ہیں تیرا ڈرایا جانا بچہ پر مہربانی کرنے سے بہتر ہے۔ «جن عليه اليل» رات کی اندھیری اس پر چھا گئی۔ «حسبان» کا معنی «حساب» ۔ کہتے ہیں اللہ پر اس کا «حسبان» یعنی «حساب» ہے اور بعضوں نے کہا «حسبان» سے مراد تیر اور شیطان پر پھینکنے کے حربے۔ «مستقر» باپ کی پشت۔ «مستودع» ماں کا پیٹ۔ «قنو»(خوشہ) گچھہ اس کا تثنیہ «قنوان» اور جمع بھی «قنوان» جیسے «صنو» اور «صنوان.»(یعنی جڑ ملے ہوئے درخت)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4627]