ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے، انہوں نے عبداللہ بن ابی ملیکہ سے سنا، وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے تھے، ابن جریج نے کہا اور میں نے ابن ابی ملیکہ کے بھائی ابوبکر بن ابی ملیکہ سے بھی سنا، وہ عبید بن عمیر سے روایت کرتے تھے کہ ایک دن عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے دریافت کیا کہ آپ لوگ جانتے ہو یہ آیت کس سلسلے میں نازل ہوئی ہے «أيود أحدكم أن تكون له جنة»”کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا ایک باغ ہو۔“ سب نے کہا کہ اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔ یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ بہت خفا ہو گئے اور کہا، صاف جواب دیں کہ آپ لوگوں کو اس سلسلے میں کچھ معلوم ہے یا نہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا: امیرالمؤمنین! میرے دل میں ایک بات آتی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بیٹے! تمہیں کہو اور اپنے کو حقیر نہ سمجھو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا کہ اس میں عمل کی مثال بیان کی گئی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا، کیسے عمل کی؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا کہ عمل کی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ ایک مالدار شخص کی مثال ہے جو اللہ کی اطاعت میں نیک عمل کرتا رہتا ہے۔ پھر اللہ شیطان کو اس پر غالب کر دیتا ہے، وہ گناہوں میں مصروف ہو جاتا ہے اور اس کے اگلے نیک اعمال سب غارت ہو جاتے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4538]