اور اللہ نے (سورۃ الجن میں) فرمایا «قل أوحي إلى أنه استمع نفر من الجن»”اے نبی! آپ کہہ دیجئیے میری طرف وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے قرآن کو کان لگا کر سنا۔“[صحيح البخاري/كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ/حدیث: Q3859]
مجھ سے عبیداللہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، کہا ہم سے مسعر نے بیان کیا، ان سے معن بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اپنے والد سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے مسروق سے پوچھا کہ جس رات میں جنوں نے قرآن مجید سنا تھا اس کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کس نے دی تھی؟ مسروق نے کہا کہ مجھ سے تمہارے والد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جنوں کی خبر ایک ببول کے درخت نے دی تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ/حدیث: 3859]
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عمرو بن یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے میرے دادا نے خبر دی اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو اور قضائے حاجت کے لیے (پانی کا) ایک برتن لیے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کون صاحب ہیں؟ بتایا کہ میں ابوہریرہ ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ استنجے کے لیے چند پتھر تلاش کر لاؤ اور ہاں ہڈی اور لید نہ لانا۔ تو میں پتھر لے کر حاضر ہوا۔ میں انہیں اپنے کپڑے میں رکھے ہوئے تھا اور لا کر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب اسے رکھ دیا اور وہاں سے واپس چلا آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت سے فارغ ہو گئے تو میں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا کہ ہڈی اور گوبر میں کیا بات ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس لیے کہ وہ جنوں کی خوراک ہیں۔ میرے پاس نصیبین کے جنوں کا ایک وفد آیا تھا اور کیا ہی اچھے وہ جن تھے۔ تو انہوں نے مجھ سے توشہ مانگا میں نے ان کے لیے اللہ سے یہ دعا کی کہ جب بھی ہڈی یا گوبر پر ان کی نظر پڑے تو ان کے لیے اس چیز سے کھانا ملے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ/حدیث: 3860]