1. باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الحجرات میں) ارشاد ”اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد آدم اور ایک ہی عورت حواء سے پیدا کیا ہے اور تم کو مختلف قومیں اور خاندان بنا دیا ہے تاکہ تم بطور رشتہ داری ایک دوسرے کو پہچان سکو، بیشک تم سب میں سے اللہ کے نزدیک معزز تر وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو“۔
اور اللہ تعالیٰ کا سورۃ نساء میں ارشاد «واتقوا الله الذي تساءلون به والأرحام إن الله كان عليكم رقيبا»”اور اللہ سے ڈرو جس کا نام لے کر تم ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور ناتا توڑنے سے ڈرو۔ بیشک اللہ تمہارے اوپر نگران ہے، اور جاہلیت کی طرح باپ دادوں پر فخر کرنا منع ہے، اس کا بیان «شعوب»، «شعب» کی جمع ہے جس سے اوپر کا خاندان مراد ہے اور «قبائل» اس سے اتر کر نیچے کا یعنی اس کی شاخ مراد ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ/حدیث: Q3489]
ہم سے خالد بن یزید الکاہلی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوبکر بن عیاش نے بیان کیا، ان سے ابوحصین (عثمان بن عاصم) نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت «وجعلناكم شعوبا وقبائل» کے متعلق فرمایا کہ «شعوب» بڑے قبیلوں کے معنی میں ہے اور «قبائل» سے کسی بڑے قبیلے کی شاخیں مراد ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ/حدیث: 3489]
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ پوچھا گیا: یا رسول اللہ! سب سے زیادہ شریف کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو۔“ صحابہ نے عرض کیا کہ ہمارا سوال اس کے بارے میں نہیں ہے، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”پھر (نسب کی رو سے) اللہ کے نبی یوسف علیہ السلام سب سے زیادہ شریف تھے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ/حدیث: 3490]
ہم سے قیس بن حفص نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، ان سے کلیب بن وائل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیر پرورش رہ چکی تھیں، کلیب نے بیان کیا کہ ہمیں نے زینب سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق قبیلہ مضر سے تھا؟ انہوں نے کہا پھر کس قبیلہ سے تھا؟ یقیناً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ مضر کی شاخ بنی نضر بن کنانہ کی اولاد میں سے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ/حدیث: 3491]
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے عبدالواحد نے، کہا ہم سے کلیب نے بیان کیا، اور ان سے ربیبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے، میرا خیال ہے کہ ان سے مراد زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا ہیں، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دباء، حنتم، نقیر اور مزفت کے استعمال سے منع فرمایا تھا اور میں نے ان سے پوچھا تھا کہ آپ مجھے بتائیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق کس قبیلہ سے تھا؟ کیا واقعی آپ کا تعلق قبیلہ مضر سے تھا؟ انہوں نے کہا پھر اور کس سے ہو سکتا ہے یقیناً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق اسی قبیلہ سے تھا۔ آپ نضر بنی بن کنانہ کی اولاد میں سے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ/حدیث: 3492]
ہم سے اسحٰق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم کو جریر نے خبر دی، انہیں عمارہ نے، انہیں ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم انسانوں کو کان کی طرح پاؤ گے (بھلائی اور برائی میں) جو لوگ جاہلیت کے زمانے میں بہتر اور اچھی صفات کے مالک تھے وہ اسلام لانے کے بعد بھی بہتر اور اچھی صفات والے ہیں بشرطیکہ وہ دین کا علم بھی حاصل کریں اور حکومت اور سرداری کے لائق اس کو پاؤ گے جو حکومت اور سرداری کو بہت ناپسند کرتا ہو۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ/حدیث: 3493]
اور آدمیوں میں سب سے برا اس کو پاؤ گے جو دورخہ (دوغلا) ہو۔ ان لوگوں میں ایک منہ لے کر آئے، دوسروں میں دوسرا منہ۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ/حدیث: 3494]
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے مغیرہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اس (خلافت کے) معاملے میں لوگ قریش کے تابع ہیں، عام مسلمان قریشی مسلمانوں کے تابع ہیں جس طرح ان کے عام کفار قریشی کفار کے تابع رہتے چلے آئے ہیں۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ/حدیث: 3495]
اور انسانوں کی مثال کان کی طرح ہے، جو لوگ جاہلیت کے دور میں شریف تھے وہ اسلام لانے کے بعد بھی شریف ہیں جب کہ انہوں نے دین کی سمجھ بھی حاصل کی ہو تم دیکھو گے کہ بہترین اور لائق وہی ثابت ہوں گے جو خلافت و امارت کے عہدے کو بہت زیادہ ناپسند کرتے رہے ہوں، یہاں تک کہ وہ اس میں گرفتار ہو جائیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ/حدیث: 3496]
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے عبدالملک نے بیان کیا، ان سے طاؤس نے کہ ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا «إلا المودة في القربى» کے متعلق (طاؤس نے) بیان کیا کہ قریش کی کوئی شاخ ایسی نہیں تھی جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت نہ رہی ہو اور اسی وجہ سے یہ آیت نازل ہوئی تھی کہ میرا مطالبہ صرف یہ ہے کہ تم لوگ میری اور اپنی قرابت داری کا لحاظ کرو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ/حدیث: 3497]
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے اسماعیل نے، ان سے قیس نے اور ان سے ابومسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اسی طرف سے فتنے اٹھیں گے یعنی مشرق سے اور بے وفائی اور سخت دلی ان لوگوں میں ہے جو اونٹوں اور گایوں کی دم کے پاس چلاتے رہتے ہیں یعنی ربیعہ اور مضر کے لوگوں میں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ/حدیث: 3498]
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ فخر اور تکبر ان چیخنے اور شور مچانے والے اونٹ والوں میں ہے اور بکری چرانے والوں میں نرم دلی اور ملائمت ہوتی ہے اور ایمان تو یمن میں ہے حکمت (حدیث) بھی یمنی ہے، ابوعبداللہ یعنی (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ یمن کا نام یمن اس لیے ہوا کہ یہ کعبہ کے دائیں جانب ہے اور شام کو شام اس لیے کہتے ہیں کہ یہ کعبہ کے بائیں جانب ہے۔ «المشأمة» بائیں جانب کو کہتے ہیں۔ بائیں ہاتھ کو «الشؤمى» کہتے ہیں اور بائیں جانب کو «الأشأم.» کہتے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ/حدیث: 3499]