39. باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ ص میں) فرمان ”ہمارے زوردار بندے داؤد کا ذکر کر، وہ اللہ کی طرف رجوع ہونے والا تھا“ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «وفصل الخطاب» تک (یعنی فیصلہ کرنے والی تقریر ہم نے انہیں عطا کی تھی)۔
مجاہد نے کہا کہ «فصل الخطاب» سے مراد فیصلے کی سوجھ بوجھ ہے۔ «ولا تشطط» یعنی بے انصافی نہ کر اور ہمیں سیدھی راہ بتا۔ یہ شخص میرا بھائی ہے اس کے پاس ننانوے «نعجة»(دنبیاں) ہیں۔“ عورت کے لیے بھی «نعجة» کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور «نعجة» بکری کو بھی کہتے ہیں ”اور میرے پاس صرف ایک دنبی ہے ‘ سو یہ کہتا ہے وہ بھی مجھ کو دے ڈال۔“ یہ «كفلها زكرياء» کی طرح ہے بمعنی «ضمها»”اور گفتگو میں مجھے دباتا ہے۔“ داود علیہ السلام نے کہا ”اس نے تیری دنبی اور اپنی دنبیوں میں ملانے کی درخواست کر کے واقعی تجھ پر ظلم کیا اور اکثر ساجھی یوں ہی ایک دوسرے کے اوپر ظلم کیا کرتے ہیں۔“ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «أنما فتناه» تک۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ( «فتناه» کے معنی ہیں) ہم نے ان کا امتحان کیا۔ عمر رضی اللہ عنہ اس کی قرآت تاء کی تشدید کے ساتھ «فتناه» کیا کرتے تھے۔ ”سو انہوں نے اپنے پروردگار کے سامنے توبہ کی اور وہ جھک پڑے اور رجوع ہوئے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/حدیث: Q3421]
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے سہل بن یوسف نے بیان کیا، کہا میں نے عوام سے سنا، ان سے مجاہد نے بیان کیا کہ میں نے عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا، کیا میں سورۃ ص میں سجدہ کیا کروں؟ تو انہوں نے آیت «ومن ذريته داود وسليمان» تلاوت کی «فبهداهم اقتده» تک نیز انہوں نے کہا کہ تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں میں سے تھے جنہیں انبیاء علیہم السلام کی اقتداء کا حکم تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/حدیث: 3421]
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے وہب نے بیان کیا، ان سے ایوب نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ سورۃ ص کا سجدہ ضروری نہیں، لیکن میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سورۃ میں سجدہ کرتے دیکھا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/حدیث: 3422]