ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے ابواسامہ سے پوچھا ‘ کیا آپ لوگوں سے ہشام بن عروہ نے یہ حدیث اپنے والد سے بیان کی ہے کہ ان سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جمل کی جنگ کے موقع پر جب زبیر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے تو مجھے بلایا میں ان کے پہلو میں جا کر کھڑا ہو گیا ‘ انہوں نے کہا بیٹے! آج کی لڑائی میں ظالم مارا جائے گا یا مظلوم میں سمجھتا ہوں کہ آج میں مظلوم قتل کیا جاؤں گا اور مجھے سب سے زیادہ فکر اپنے قرضوں کی ہے۔ کیا تمہیں بھی کچھ اندازہ ہے کہ قرض ادا کرنے کے بعد ہمارا کچھ مال بچ سکے گا؟ پھر انہوں نے کہا بیٹے! ہمارا مال فروخت کر کے اس سے قرض ادا کر دینا۔ اس کے بعد انہوں نے ایک تہائی کی میرے لیے اور اس تہائی کے تیسرے حصہ کی وصیت میرے بچوں کے لیے کی ‘ یعنی عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے بچوں کے لیے۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ اس تہائی کے تین حصے کر لینا اور اگر قرض کی ادائیگی کے بعد ہمارے اموال میں سے کچھ بچ جائے تو اس کا ایک تہائی تمہارے بچوں کے لیے ہو گا۔ ہشام راوی نے بیان کیا کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ کے بعض لڑکے زبیر رضی اللہ عنہ کے لڑکوں کے ہم عمر تھے۔ جیسے خبیب اور عباد۔ اور زبیر رضی اللہ عنہ کے اس وقت نو لڑکے اور نو لڑکیاں تھیں۔ عبداللہ بن زبیر نے بیان کیا کہ پھر زبیر رضی اللہ عنہ مجھے اپنے قرض کے سلسلے میں وصیت کرنے لگے اور فرمانے لگے کہ بیٹا! اگر قرض ادا کرنے سے عاجز ہو جاؤ تو میرے مالک و مولا سے اس میں مدد چاہنا۔ عبداللہ نے بیان کیا کہ قسم اللہ کی! میں ان کی بات نہ سمجھ سکا ‘ میں نے پوچھا کہ بابا آپ کے مولا کون ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ پاک! عبداللہ نے بیان کیا ‘ قسم اللہ کی! قرض ادا کرنے میں جو بھی دشواری سامنے آئی تو میں نے اسی طرح دعا کی ‘ کہ اے زبیر کے مولا! ان کی طرف سے ان کا قرض ادا کرا دے اور ادائیگی کی صورت پیدا ہو جاتی تھی۔ چنانچہ جب زبیر رضی اللہ عنہ (اسی موقع پر) شہید ہو گئے تو انہوں نے ترکہ میں درہم و دینار نہیں چھوڑے بلکہ ان کا ترکہ کچھ تو اراضی کی صورت میں تھا اور اسی میں غابہ کی زمین بھی شامل تھی۔ گیارہ مکانات مدینہ میں تھے ‘ دو مکان بصرہ میں تھے ‘ ایک مکان کوفہ میں تھا اور ایک مصر میں تھا۔ عبداللہ نے بیان کیا کہ ان پر جو اتنا سارا قرض ہو گیا تھا اس کی صورت یہ ہوئی تھی کہ جب ان کے پاس کوئی شخص اپنا مال لے کر امانت رکھنے آتا تو آپ اسے کہتے کہ نہیں البتہ اس صورت میں رکھ سکتا ہوں کہ یہ میرے ذمے بطور قرض رہے۔ کیونکہ مجھے اس کے ضائع ہو جانے کا بھی خوف ہے۔ زبیر رضی اللہ عنہ کسی علاقے کے امیر کبھی نہیں بنے تھے۔ نہ وہ خراج وصول کرنے پر کبھی مقرر ہوئے اور نہ کوئی دوسرا عہدہ انہوں نے قبول کیا ‘ البتہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ جہادوں میں شرکت کی تھی۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب میں نے اس رقم کا حساب کیا جو ان پر قرض تھی تو اس کی تعداد بائیس لاکھ تھی۔ بیان کیا کہ پھر حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے ملے تو دریافت فرمایا، بیٹے! میرے (دینی) بھائی پر کتنا قرض رہ گیا ہے؟ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے چھپانا چاہا اور کہہ دیا کہ ایک لاکھ، اس پر حکیم رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم اللہ کی! میں تو نہیں سمجھتاکہ تمہارے پاس موجود سرمایہ سے یہ قرض ادا ہو سکے گا۔ عبداللہ نے اب کہا: کہ قرض کی تعداد بائیس لاکھ ہوئی پھر آپ کی کیا رائے ہو گی؟ انہوں نے فرمایا: پھر تو یہ قرض تمہاری برداشت سے بھی باہر ہے۔ خیر اگر کوئی دشواری پیش آئے تو مجھ سے کہنا، عبداللہ نے بیان کیا کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے غابہ کی جائداد ایک لاکھ ستر ہزار میں خریدی تھی لیکن عبداللہ نے وہ سولہ لاکھ میں بیچی۔ پھر انہوں نے اعلان کیا کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ پر جس کا قرض ہو وہ غابہ میں آکر ہم سے مل لے، چنانچہ عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ آئے، ان کا زبیر پر چار لاکھ روپیہ چاہئے تھا۔ انہوں نے تو یہی پیشکش کی کہ اگر تم چاہو تو میں یہ قرض چھوڑ سکتا ہوں، لیکن عبداللہ نے کہا کہ نہیں پھر انہوں نے کہا کہ اگر تم چاہو تو میں سارے قرض کی ادائیگی کے بعد لے لوں گا۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اس پر بھی یہی کہا کہ تاخیر کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ آخر انہوں نے کہا کہ پھر اس زمین میں میرے حصے کا قطعہ مقرر کر دو۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ اپنے قرض میں یہاں سے یہاں تک لے لیجئے۔ (راوی نے) بیان کیا کہ زبیر رضی اللہ عنہ کی جائداد اور مکانات وغیرہ بیچ کر ان کا قرض ادا کر دیا گیا۔ اور سارے قرض کی ادائیگی ہو گئی۔ غابہ کی جائداد میں ساڑھے چار حصے ابھی بک نہیں سکے تھے۔ اس لئے عبداللہ رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے یہاں (شام) تشریف لے گئے، وہاں عمرو بن عثمان، منذر بن زبیر اور ابن زمعہ بھی موجود تھے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کیا کہ غابہ کی جائداد کی قیمت کتنی طے ہوئی، انہوں نے بتایا کہ ہر حصے کی قیمت ایک لاکھ طے پائی تھی۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ اب باقی کتنے حصے رہ گئے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ ساڑھے چار حصے، اس پر منذر بن زبیر نے کہا کہ ایک حصہ ایک لاکھ میں لے لیتا ہوں، عمر و عثمان نے کہا کہ ایک حصہ ایک لاکھ میں لے لیتا ہوں، ابن زمعہ نے کہا کہ ایک حصہ ایک لاکھ میں لے لیتا ہوں، اس کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اب کتنے حصے باقی بچے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ڈیڑھ حصہ! معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر اسے میں ڈیڑھ لاکھ میں لے لیتا ہوں، بیان کیا کہ عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے اپنا حصہ بعد میں معاویہ رضی اللہ عنہ کو چھ لاکھ میں بیچ دیا۔ پھر جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ قرض کی ادائیگی کر چکے تو زبیر رضی اللہ عنہ کی اولاد نے کہا کہ اب ہماری میراث تقسیم کر دیجئے، لیکن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابھی تمھاری میراث اس وقت تک تقسیم نہیں کر سکتا جب تک چار سال تک ایام حج میں اعلان نہ کرا لوں کہ جس شخص کا بھی زبیر رضی اللہ عنہ پر قرض ہو وہ ہمارے پاس آئے اور اپنا قرض لے جائے، راوی نے بیان کیا کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اب ہر سال ایام حج میں اس کا اعلان کرانا شروع کیا اور جب چار سال گزر گئے، تو عبداللہ نے ان کی میراث تقسیم کی۔ راوی نے بیان کیا کہ زبیر رضی اللہ عنہ کی چار بیویاں تھیں اور عبداللہ نے (وصیت کے مطابق) تہائی حصہ بچی ہوئی رقم میں سے نکال لیا تھا، پھر بھی ہر بیوی کے حصے میں بارہ بارہ لاکھ کی رقم آئی، اور کل جائداد حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی پانچ کروڑ دو لاکھ ہوئی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ/حدیث: 3129]