ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو عیسیٰ نے خبر دی، کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا، ان سے محمد نے، ان سے عبیدہ نے اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ غزوہ احزاب (خندق) کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مشرکین کو) یہ بددعا دی کہ اے اللہ! ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے۔ انہوں نے ہم کو صلوٰۃ وسطیٰ (عصر کی نماز) نہیں پڑھنے دی (یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا) جب سورج غروب ہو چکا تھا اور عصر کی نماز قضاء ہو گئی تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 2931]
ہم سے قبیصہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابن ذکوان نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (صبح کی) دعائے قنوت میں (دوسری رکعت کے رکوع کے بعد) یہ دعا پڑھتے تھے «اللهم أنج سلمة بن هشام، اللهم أنج الوليد بن الوليد، اللهم أنج عياش بن أبي ربيعة، اللهم أنج المستضعفين من المؤمنين، اللهم اشدد وطأتك على مضر، اللهم سنين كسني يوسف»”اے اللہ سلمہ بن ہشام کو نجات دے، ولید بن ولید کو نجات دے، اے اللہ! عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے، اے اللہ! تمام کمزور مسلمانوں کو نجات دے۔ (جو مکہ میں مشرکین کی سختیاں جھیل رہے ہیں) اے اللہ! مضر پر اپنا سخت عذاب نازل کر۔ اے اللہ ایسا قحط نازل کر جیسا یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں پڑا تھا۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 2932]
ہم سے احمد بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں اسماعیل بن ابی خالد نے خبر دی اور انہوں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ بیان کرتے تھے کہ غزوہ احزاب کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی تھی «اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَابِ سَرِيعَ الْحِسَابِ، اللَّهُمَّ اهْزِمِ الأَحْزَابَ، اللَّهُمَّ اهْزِمْهُمْ وَزَلْزِلْهُمْ»”اے اللہ! کتاب کے نازل کرنے والے (قیامت کے دن) حساب بڑی سرعت سے لینے والے، اے اللہ! مشرکوں اور کفار کی جماعتوں کو (جو مسلمانوں کا استیصال کرنے آئی ہیں) شکست دے۔ اے اللہ! انہیں شکست دے اور انہیں جھنجھوڑ کر رکھ دے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 2933]
ہم سے عبداللہ بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جعفر بن عون نے بیان کیا، ہم سے سفیان ثوری نے، ان سے ابواسحاق نے، ان سے عمرو بن میمون نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے سائے میں نماز پڑھ رہے تھے، ابوجہل اور قریش کے بعض دوسرے لوگوں نے کہا کہ اونٹ کی اوجھڑی لا کر کون ان پر ڈالے گا؟ مکہ کے کنارے ایک اونٹ ذبح ہوا تھا (اور اسی کی اوجھڑی لانے کے واسطے) ان سب نے اپنے آدمی بھیجے اور وہ اس اونٹ کی اوجھڑی اٹھا لائے اور اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر (نماز پڑھتے ہوئے) ڈال دیا۔ اس کے بعد فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر سے اس گندگی کو ہٹایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت یہ بددعا کی «اللهم عليك بقريش، اللهم عليك بقريش، اللهم عليك بقريش ". لأبي جهل بن هشام، وعتبة بن ربيعة، وشيبة بن ربيعة، والوليد بن عتبة، وأبى بن خلف، وعقبة بن أبي معيط.»”اے اللہ! قریش کو پکڑ، اے اللہ! قریش کو پکڑ، ابوجہل بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، ابی بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط سب کو پکڑ لے۔“ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا چنانچہ میں نے ان سب کو جنگ بدر میں بدر کے کنوئیں میں دیکھا کہ سب کو قتل کر کے اس میں ڈال دیا گیا تھا۔ ابواسحاق نے کہا کہ میں ساتویں شخص کا (جس کے حق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بددعا کی تھی نام) بھول گیا اور یوسف بن ابی اسحاق نے کہا کہ ان سے ابواسحاق نے (سفیان کی روایت میں ابی بن خلف کی بجائے) امیہ بن خلف بیان کیا اور شعبہ نے کہا کہ امیہ یا ابی (شک کے ساتھ ہے) لیکن صحیح امیہ ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 2934]
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ بعض یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور کہا «السام عليك.»(تم پر موت آئے) میں نے ان پر لعنت بھیجی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا بات ہوئی؟“ میں نے کہا کیا انہوں نے ابھی جو کہا تھا آپ نے نہیں سنا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کیا اور تم نے نہیں سنا کہ میں نے اس کا کیا جواب دیا «وعليكم» یعنی تم پر بھی وہی آئے (یعنی میں نے کوئی برا لفظ زبان سے نہیں نکالا صرف ان کی بات ان ہی پر لوٹا دی)۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 2935]