اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میرے والد کے قرض کے سلسلے میں قرض خواہوں نے اپنا حق مانگنے میں شدت اختیار کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے یہ صورت رکھی کہ وہ میرے باغ کا میوہ قبول کر لیں۔ انہوں نے اس سے انکار کیا، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باغ نہیں دیا اور نہ پھل توڑوائے بلکہ فرمایا کہ میں تمہارے پاس کل آؤں گا۔ چنانچہ دوسرے دن صبح ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں تشریف لائے اور پھلوں میں برکت کی دعا فرمائی۔ اور میں نے (اسی باغ سے) ان سب کا قرض ادا کر دیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالْحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ/حدیث: Q2403]