اور عداء بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع نامہ لکھ دیا تھا کہ یہ وہ کاغذ ہے جس میں محمد اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا عداء بن خالد سے خریدنے کا بیان ہے۔ یہ بیع مسلمان کی ہے مسلمان کے ہاتھ، نہ اس میں کوئی عیب ہے نہ کوئی فریب نہ فسق و فجور، نہ کوئی بدباطنی ہے۔ اور قتادہ رحمہ اللہ نے کہا کہ غائلہ، زنا، چوری اور بھاگنے کی عادت کو کہتے ہیں۔ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے کسی نے کہا کہ بعض دلال (اپنے اصطبل کے) نام ”آری خراسان اور سجستان“(خراسانی اصطبل اور سجستانی اصطبل) رکھتے ہیں اور (دھوکہ دینے کے لیے) کہتے ہیں کہ فلاں جانور کل ہی خراسان سے آیا تھا۔ اور فلاں آج ہی سجستان سے آیا ہے۔ تو ابراہیم نخعی نے اس بات کو بہت زیادہ ناگواری کے ساتھ سنا۔ عقبہ بن عامر نے کہا کہ کسی شخص کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ کوئی سودا بیچے اور یہ جاننے کے باوجود کہ اس میں عیب ہے ”خریدنے والے کو اس کے متعلق کچھ نہ بتائے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: Q2079]
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے ان سے صالح ابوخلیل نے، ان سے عبیداللہ بن حارث نے، انہوں نے حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، خریدنے اور بیچنے والوں کو اس وقت تک اختیار (بیع ختم کر دینے کا) ہے جب تک دونوں جدا نہ ہوں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( «ما لم يتفرقا» کے بجائے) «حتى يتفرقا» فرمایا۔ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید ارشاد فرمایا) پس اگر دونوں نے سچائی سے کام لیا اور ہر بات صاف صاف کھول دی تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ہوتی ہے لیکن اگر کوئی بات چھپا رکھی یا جھوٹ کہی تو ان کی برکت ختم کر دی جاتی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 2079]