ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عون نے، ان سے شعبی نے، انہوں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا (دوسری سند امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا) اور ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابوفروہ نے، ان سے شعبی نے، کہا کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے سنا، اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے (تیسری سند) اور ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابوفروہ نے، انہوں نے شعبی سے سنا، انہوں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے سنا اور انہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے (چوتھی سند) اور ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں ابوفروہ نے، انہیں شعبی نے اور ان سے سے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حلال بھی کھلا ہوا ہے اور حرام بھی ظاہر ہے لیکن ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں۔ پس جو شخص ان چیزوں کو چھوڑے جن کے گناہ ہونے یا نہ ہونے میں شبہ ہے وہ ان چیزوں کو تو ضروری ہی چھوڑ دے گا جن کا گناہ ہونا ظاہر ہے لیکن جو شخص شبہ کی چیزوں کے کرنے کی جرات کرے گا تو قریب ہے کہ وہ ان گناہوں میں مبتلا ہو جائے جو بالکل واضح طور پر گناہ ہیں (لوگو یاد رکھو) گناہ اللہ تعالیٰ کی چراگاہ ہے جو (جانور بھی) چراگاہ کے اردگرد چرے گا اس کا چراگاہ کے اندر چلا جانا غیر ممکن نہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 2051]