ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے عمر بن محمد نے، ان سے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے، اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عاشورہ کے دن اگر کوئی چاہے تو روزہ رکھ لے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّوْمِ/حدیث: 2000]
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے خبر دی، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ(شروع اسلام میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کے دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا۔ پھر جب رمضان کے روزے فرض ہو گئے تو جس کا دل چاہتا اس دن روزہ رکھتا اور جو نہ چاہتا نہیں رکھا کرتا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّوْمِ/حدیث: 2001]
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے اور ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ عاشوراء کے دن زمانہ جاہلیت میں قریش روزہ رکھا کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی رکھتے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں بھی عاشورہ کے دن روزہ رکھا اور اس کا لوگوں کو بھی حکم دیا۔ لیکن رمضان کی فرضیت کے بعد آپ نے اس کو چھوڑ دیا اور فرمایا کہ اب جس کا جی چاہے اس دن روزہ رکھے اور جس کا چاہے نہ رکھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّوْمِ/حدیث: 2002]
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے حمید بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا کہ انہوں نے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما سے عاشوراء کے دن منبر پر سنا، انہوں نے کہا کہ اے اہل مدینہ! تمہارے علماء کدھر گئے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ یہ عاشوراء کا دن ہے۔ اس کا روزہ تم پر فرض نہیں ہے لیکن میں روزہ سے ہوں اور اب جس کا جی چاہے روزہ سے رہے (اور میری سنت پر عمل کرے) اور جس کا جی چاہے نہ رہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّوْمِ/حدیث: 2003]
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ایوب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن سعید بن جبیر نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے۔ (دوسرے سال) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو دیکھا کہ وہ عاشوراء کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس کا سبب معلوم فرمایا تو انہوں نے بتایا کہ یہ ایک اچھا دن ہے۔ اسی دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن (فرعون) سے نجات دلائی تھی۔ اس لیے موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ آپ نے فرمایا پھر موسیٰ علیہ السلام کے (شریک مسرت ہونے میں) ہم تم سے زیادہ مستحق ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس کا حکم دیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّوْمِ/حدیث: 2004]
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ابوعمیس نے، ان سے قیس بن مسلم نے، ان سے طارق بن شہاب نے اور ان سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عاشوراء کے دن کو یہودی عید کا دن سمجھتے تھے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم بھی اس دن روزہ رکھا کرو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّوْمِ/حدیث: 2005]
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے، ان سے عبیداللہ بن ابی یزید نے، اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سوا عاشوراء کے دن کے اور اس رمضان کے مہینے کے اور کسی دن کو دوسرے دنوں سے افضل جان کر خاص طور سے قصد کر کے روزہ رکھتے نہیں دیکھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّوْمِ/حدیث: 2006]
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو اسلم کے ایک شخص کو لوگوں میں اس بات کے اعلان کا حکم دیا تھا کہ جو کھا چکا ہو وہ دن کے باقی حصے میں بھی کھانے پینے سے رکا رہے اور جس نے نہ کھایا ہو اسے روزہ رکھ لینا چاہئے کیونکہ یہ عاشوراء کا دن ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّوْمِ/حدیث: 2007]