مزاج میں انتہا درجہ کی رحمدلی اور نرمی اللہ نے بخشی تھی۔ ایک دفعہ آپ کا ایک مضارب (شریک تجارت، پارٹنر) آپ کے 25 ہزار درہم دبا بیٹھا۔ آپ کے بعض شاگردوں (محمد بن ابی حاتم وغیرہ) نے کہا کہ وہ قرضدار شہر آمل میں آ گیا ہے اب اس سے روپیہ وصول کرنے میں آسانی ہو گی۔ آپ نے فرمایا کہ میں قرض دار کو پریشانی میں ڈالنا نہیں چاہتا۔ قرض دار خوف سے خوارزم چلا گیا۔ آپ سے کہا گیا کہ گورنر کی طرف سے ایک خط حاکم خوارزم کو لکھوا کر اسے گرفتار کرا دیجئے۔ آپ نے فرمایا کہ میں حکومت سے ایک خط کے لئے طمع کروں گا اس کے عوض حکومت کل میرے دین میں طمع کرے گی میں یہ بوجھ برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں۔ بالآخر امام نے مقروض سے اس بات پر مصالحت کر لی کہ وہ ہر ماہ ایک مخصوص رقم حضرت کو ادا کیا کرے گا۔ لیکن وہ تمام روپیہ ضائع ہو گیا اور وہ امام کا ایک پیسہ بھی نہ واپس کر سکا۔ مگر آپ نے حلم و عفو کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔
امام کرمانی کا بیان ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کئی کئی دن مسلسل بغیر کھائے پئے گزار دیا کرتے تھے۔ اور کبھی صرف دو تین بادام کھا لینا ہی ان کے لئے کافی ہو جاتا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ وہ بہت ہی سخی اور غرباء نواز و مساکین دوست انسان تھے۔ اپنی تجارت سے حاصل شدہ نفع طلبہ و محدثین پر صرف فرما دیتے تھے۔ ہر ماہ فقراء و مساکین و طلبہ و محدثین کے لئے پانچ سو درہم تقسیم فرمایا کرتے تھے۔ بے نفسی کا یہ عالم کہ ایک دفعہ آپ کی ایک لونڈی گھر میں اس طرف سے گزری جہاں آپ کاغذ، دوات، قلم وغیرہ رکھا کرتے تھے۔ اس باندی کی ٹھوکر سے آپ کی دوات کی ساری روشنائی فرش پر پھیل گئی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حرکت پر باندی کو ٹوکا تو اس نے جواب دیا کہ جب کسی جانب راستہ ہی نہ ہو تو کیا کیا جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس نامعقول جواب سے برانگیختہ نہیں ہوئے بلکہ ہاتھ دراز کر کے فرمایا کہہ جاؤ میں نے تم کو آزاد کر دیا۔ اس پر آپ سے پوچھا گیا کہ اس نے تو ناراضگی کا کام کیا تھا آپ نے اسے آزاد کیوں فرما دیا آپ نے کہا اس کے اس کام سے میں نے اپنے نفس کی اصلاح کر لی اور اسی خوشی میں اسے پروانہ آزادی دے دیا۔
ایک مرتبہ آپ نے ابومعشر ایک نابینا بزرگ سے فرمایا کہ اے ابو معشر تم مجھے معاف کر دو۔ انہوں نے حیرت و استعجاب کے ساتھ کہا کہ حضرت یہ معافی کس بات کی ہے؟ آپ نے بتلایا کہ آپ ایک مرتبہ حدیث بیان کرتے ہوئے فرط مسرت میں انوکھے انداز سے اپنے سر اور ہاتھوں کو حرکت دے رہے تھے۔ جس پر مجھ کو ہنسی آ گئی۔ میں آپ کی شان میں اسی گستاخی کے لئے آپ سے معافی کا طلبگار ہوں۔ ابومعشر نے جواب میں عرض کیا کہ اے حضرت امام! آپ سے کسی قسم کی باز پرس نہیں ہے۔
خالد بن احمد ذہلی حاکم بخارا نے ایک مرتبہ آپ کی خدمت میں درخواست بھیجی کہ آپ دربار شاہی میں تشریف لا کر مجھے اور میرے شہزادوں کو صحیح بخاری اور تاریخ کا درس دیا کریں۔ آپ نے قاصد کی زبانی کہلا بھیجا کہ میں آپ کے دربار میں آ کر شاہی خوشامدیوں کی فہرست میں اضافہ نہیں کرنا چاہتا اور نہ مجھے علم کی بے قدری گوارا ہے۔ حاکم نے دوبارہ کہلوایا کہ پھر شاہزادوں کے لئے کوئی وقت مخصوص فرما دیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ میراث نبوت میں کسی امیر غریب کا امتیاز نہیں ہے۔ اس لئے میں اس سے بھی معذور ہوں۔ اگر حاکم بخارا کو میرا یہ جواب ناگوار خاطر ہو تو جبرا میرا درس حدیث روک سکتے ہیں تاکہ میں اللہ تعالیٰ کے دربار یں عذر خواہی کر سکوں۔ ان جوابات سے حاکم بخارا سخت برہم ہوئے اور اس نے حضرت امام کو بخارا سے نکالنے کی سازش کی۔