صحيح البخاري
برصغیر پاک و ہند، شہر لاہور کا اعزار صحیح بخاری کا ایک معتبر نسخہ، نسخہ بغدادیہ، از امام صغانی لاہوری رحمہ اللہ:
صحیح بخاری کی شہرت اور کتب حدیث میں اس کے مقام و مرتبہ کی وجہ سے محدثین کرام کی ایک بہت بڑی تعداد نے امام بخاری سے اسے سنا ہے اور اس کی روایت لی ہے۔ تقریبا نوے ہزار محدثین کرام نے اسے امام بخاری سے سنا ہے۔ آج کے اس ڈیجیٹل اور ٹیکنالوجی کے دور میں بھی جب کہ پوری دنیا کا سفر بالکل آسان ہو گیا ہے کسی استاد سے اس کی کسی کتاب کے پڑھنے سننے والوں کی اتنی کثیر تعداد کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس زمانے میں جب کہ لاؤڈ اسپیکر وغیرہ کا کوئی انتظام نہیں تھا ایک ایک درس میں ہزاروں کی تعداد میں طلبہ ائمۂ کرام کے دروس میں حاضر ہوتے۔ دور اور پیچھے بیٹھنے والے مستملی کے ذریعہ حدیثیں سنتے۔
امام بخاری کے ان بے شمار روات میں سے بعض ہی راویوں کی روایتیں بعد کے زمانے تک پہنچیں۔
ان میں سے سب سے مشہور روایت محمد بن یوسف بن مطر الفِرَبرِی کی روایت ہے۔
امام فربری کے متعدد تلامذہ میں سے تین بہت مشہور ہیں:
➊ ابو اسحاق المُستَملی
➋ ابو محمد عبد اللہ السَّرَخسِی الحموی
➌ ابو الہیثم محمد بن مکی الکُشمیہنی
اور ان تینوں کے سب سے مشہور شاگرد ہیں: ابو ذر الھروی۔
حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں ابو ذر الھروی کی ہی روایت پر اعتماد کیا ہے۔ جب کہ دوسرے شارحین نے دوسری روایتوں پر اعتماد کیا ہے، مثلا امام خطابی نے اپنی شرح ”اعلام الحدیث“ میں ابراہیم بن معقل نسفی کی روایت پر اعتماد کیا ہے۔ علامہ قسطلانی نے ارشاد الساری میں امام یونینی کے نسخہ پر اعتماد کیا ہے۔ وھکذا۔
چنانچہ فتح الباری میں ہر دو چار صفحے کے بعد آپ کو «وفي رواية أبى ذر» کا لفظ مل جائےگا۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ صحیح بخاری کے جو دوسرے روات ہیں حافظ ابن حجر نے ان کی روایتوں کو نظر انداز کر دیا ہے۔ بلکہ ان کی بھی روایتوں سے استفادہ ونقل کیا ہے۔ ان میں سے ایک اہم نسخہ علامہ صغانی رحمہ اللہ کا نسخہ ہے۔ بلکہ ابو ذرہروی کی روایت کے بعد غالبا علامہ صغانی کے نسخے سے ہی سب سے زیادہ آپ نے استفادہ اور نقل کیا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاں دوسرے رُوات کی رسائی امام فربری کے اصل نسخہ تک نہ ہو سکی تھی، وہاں علامہ صغانی کو وفات کے اعتبار سے متاخر ہونے کے باوجود اللہ کے فضل وکرم سے امام فربری کا اصل نسخہ مل گیا تھا اور اس اصل نسخہ سے انھوں نے اپنے نسخہ کا تقابل بھی کیا تھا۔ دیکھیں: [روايات الجامع الصحيح ونسخه للدكتور جمعه فتحي عبد الحليم 2/781-784، ونسخة الامام الصغاني من صحيح البخاري وقيمتها العلمية للدكتور احمد بن فارس السلوم، ويب سائٹ“ ملتقي اهل الحديث ”ميں شائع شده مقاله]
محدثین کے نزدیک امام صغانی کا یہ نسخہ ”نسخۂ بغدادیہ“ کے نام سے معروف ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ایک جگہ فرماتے ہیں:
«تنبيه: وقع فى النسخة البغدادية التى صححها العلامة أبو محمد بن الصغاني اللغوي بعد أن سمعها من أصحاب أبى الوقت، وقابلها على عدة نسخ، وجعل لها علامات» [فتح الباري لابن حجر: 1/153]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اس نسخہ کی کافی تعریف کی ہے۔
مثلا ایک جگہ فرماتے ہیں:
«دل كلام الصغاني فى نسخته التى أتقنها وحررها، وهو من أئمة اللغة» [فتح الباري لابن حجر 3/515]
ہمارے لیے یہ شرف کی بات ہے کہ علامہ صغانی رحمہ اللہ کا تعلق برصغیر پاک و ہند سے ہے جن کے نسخہ سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ جیسے امام اور حافظ امت اپنی سب سے مایہ ناز کتاب ”فتح الباری“ میں نہ یہ کہ صرف نقل کرتے ہیں بلکہ ترجیح کے وقت اعتماد بھی کرتے ہیں۔
متعدد علماء سیرت و تاریخ نے آپ کو ”لاہوری“ نسبت سے منسوب کیا ہے۔ بطور مثال دیکھیں: [البلغة فى تراجم أئمة النحو واللغة: ص: 117، الإعلام بمن فى تاريخ الهند من الأعلام: 1/117، معجم المؤلفين: 3/ 279]
جب کہ حافظ ذہبی نے تاریخ الاسلام [14/636] میں اور ابو محمد الطیب بامخرمہ نے قلادة النحر في وفيات أعيان الدهر [5/220] میں آپ کو ”الھندی“ کہا ہے۔
آپ کا مختصر تعارف:
نام، نسب ونسبت: حسن بن محمد بن حسن بن حيدر بن علی بن اسماعیل العمری ثم الصغانی۔
علامہ موصوف نے اپنا یہ نسب نامہ خود اپنی کتاب «العباب الزاخر واللباب الفاخر» [1/1] کے مقدمے میں ذکر کیا ہے۔
کنیت:
ابو الفضائل، لقب: رضی الدين، الملتجئ الى حرم الله تعالى۔ دیکھیں: [شذرات الذهب 7/431، والبلغة للفيروز آبادي ص117، مجمع الآداب لابن الفوطي 6/489]
بلکہ یہ لقب خود علامہ موصوف نے اپنی کتاب العباب 1/336 میں ذکر کیا ہے۔
”عمری“ یہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی طرف نسبت ہے۔ اور ”صغانی“ یہ بلاد ماوراء النھر میں واقع مرو کے ایک گاؤں چاغان کی طرف منسوب ہے۔ اسے کوہ چاغان بھی کہا جاتا ہے۔ اسی گاؤں کی طرف منسوب عربی زبان میں انھیں ”صغانی“ کہا جاتا ہے۔ دیکھیں: [الانساب للسمعاني 8/252، و القاموس المحيط للفيروزآبادي، ماده ص غ ن، ص 1210]
ولادت:
خسرو ملک بن خسرو شاہ غزنوی کے دور میں 10 صفر سنہ 577 ہجری کو لاہور میں آپ کی ولادت ہوئی۔ دیکھیں: [تاريخ الاسلام للذهبي14/636، الجواهر المضيئه لعبد القادر القرشي 1/201]
اکثر مورخین نے ان کی یہی تاریخ پیدائش ذکر کی ہے۔ لیکن عبد الحی حسنی فرماتے ہیں کہ ان کی ولادت 15 صفر 557 ہجری کو ہوئی۔ [نزهة الخواطر 1/91]
«والله اعلم بالصواب»
علمی اسفار:
اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے آپ نے متعدد ملکوں کا سفر کیا۔ جن میں ہندوستان کے علاوہ بلاد ماوراء النھر، خراسان، عراق، حجاز اور یمن قابل ذکر ہیں۔
شروعات آپ نے اپنے والد ماجد محمد بن حسن بن حیدر کی آغوش میں کی اور انھی کے ہاتھوں آپ کی علمی نشوونما ہوئی۔ اپنی مشہور کتاب العباب الزاخر میں متعدد جگہوں پر اپنے والد سے انھوں نے بہت سارے علمی فوائد کا ذکر کیا ہے۔ کچھ بڑے ہوئے تو سندھ کے علاقے غزنہ کی طرف اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے سب سے پہلا علمی سفر کیا۔ کچھ دنوں بعد قطب الدین ایبک نے آپ کو شہر لاہور کا جج بننے کا آفر پیش کیا، لیکن آپ نے علمی تشنگی کی خاطر یہ عظیم پیش کش ٹھکرا دی۔ اور بغداد کے لیے اپنا رخت سفر باندھا۔ وہاں پہنچ کر آپ نے بغداد کے کبار علما سے علم حاصل کیا اور علماء بغداد کی ایک جماعت سے اجازہ حاصل کرنے کے بعد مکہ مکرمہ کے لیے نکل پڑے، فریضۂ حج کی ادائیگی کے بعد ایک مدت تک وہیں مقیم رہے اور وہاں کےعلما سے اپنی علمی پیاس بجھاتے رہے۔ چنانچہ آپ اپنا لقب ہی الملتجئ الی حرم اللہ لکھتے تھے۔ پھر یمن کے لیے نکل پڑے اور عدن پہنچ کر وہاں کے علماء کرام سے علم حاصل کرتے رہے۔ بالآخر عباسی خلیفہ الناصر لدین اللہ کے زمانہ میں سنہ 615 ہجری میں بغداد واپس لوٹ آئے۔ خلیفہ وقت نے ان کی تکریم کی اور انھیں اپنا قاصد بنا کر سنہ 617 ہجری میں شاہ ہند شمس الدین التمش کی طرف اپنے مکتوب کے ساتھ روانہ کیا۔ ہندوستان پہنچنے کے بعد آپ چھ سات سال تک وہیں مقیم رہے۔ پھر سنہ 624 ہجری میں مکہ مکرمہ کے لیے نکل پڑے۔ حج کیا اور حج کے بعد یمن تشریف لے گئے۔ پھر دوسری بار یمن سے بغداد واپس لوٹ آئے۔ اب عباسی خلیفہ مستنصر باللہ کا دور تھا۔ انھوں نے بھی انھیں حسب سابق اپنا قاصد بنا کر ملکۂ ہند رضیہ سلطانہ بنت التمش کے پاس بھیجا۔ آپ ان کا یہ پیغام لے کر 22 ربیع الاول 624 ہجری کو راجدھانی دہلی پہنچے، آپ کی وجہ سے شہر کو سجایا گیا اور آپ کا زبردست استقبال ہوا۔ بعض مؤرخین فرماتے ہیں کہ کل ملا کر آپ نے چالیس سال سے زیادہ ہندوستان میں گزر بسر کی۔ 637 ہجری میں آپ پھر بغداد واپس آ گئے۔ اور آخری زندگی تک یہیں مقیم رہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں: [معجم الادباء لياقوت الحموي 3/1015، الوافي بالوفيات للصفدي 12/150-151، العقد الثمين للفاسي 3/407، الجواهر المضيئه 1/202، نزهة الخواطر 1/91 -93، اوركتاب العباب كے محقق محمد حسن كا مقدمه وغيره]
علمی مقام ومرتبہ:
علم حدیث، لغت اور فقہ پر آپ کو عبور حاصل تھا۔ صحیح بخاری کی آپ نے ایک شرح بھی لکھی تھی۔ لیکن آپ کا اصل میدان لغت اور نحو تھا، علم لغت پر آپ نے کافی کتابیں لکھیں جن کا مختصر ذکر آگے آرہا ہے۔ معالم السنن للخطابی آپ کی پسندیدہ کتاب تھی اور ابو عبید القاسم بن سلام کی غریب الحدیث جیسی ضخیم کتاب کے آپ حافظ تھے۔
بہت سارے علماء کرام نے آپ کا تزکیہ اور آپ کی تعریف کی ہے۔
آپ کے لیے شرف کی بات ہے کہ آپ کے ہم عصر بلکہ آپ سے پہلے ہی فوت ہونے والے اس زمانے کے مشہور عالمِ دین علامہ یاقوت حموی نے ”معجم الادباء“ میں آپ کی مفصل سوانح حیات لکھی ہے۔
بہاء الدین جندی فرماتے ہیں: بہت بڑے امام تھے، بہت سارے علوم وفنون کے ماہر تھے جن میں سے بطور خاص نحو، لغت، حدیث اور فقہ حنفی ہے۔ [السلوك فى طبقات العلماء والملوك 2/ 402]
حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آپ علم لغت میں درجۂ کمال کوپہنچے ہوئے تھے۔ [تاريخ اسلام 14/636]
دمیاطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لغت، فقہ اور حدیث کے آپ امام تھے۔ [نزهة الخواطر 1/92]
علامہ فیروزآبادی فرماتے ہیں: لغت، حدیث اور فقہ کے آپ امام تھے۔ [البلغة فى تراجم أئمة النحو واللغة ص: 117]
امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اپنے زمانے میں علم لغت کے آپ علمبردار تھے۔ [بغية الوعاة للسيوطي 1/519]
شمس الدین ابن الغزی نے آپ کو ”امام، عالم، علامہ، محدث اور لغوی“ جیسے علمی القاب سے نوازاہے۔ [ديوان الاسلام 3/205]
عبد الحی حسنی فرماتے ہیں: آپ فضول کلامی سے دور رہنے والےایک نیک عالمِ دین، فقیہ، محدث اور لغوی تھے۔ [نزهة الخواطر 1/92]
اور زرکلی فرماتے ہیں: آپ علم لغت کےاپنے زمانے کے سب سے بڑے عالم تھے اور فقیہ ومحدث بھی تھے۔ [الاعلام 2/214]
عقیدہ اور فقہی مذہب:
آپ کے عقیدے کے متعلق کہیں پر کسی سوانح نگار سے صراحت کے ساتھ کچھ نہیں ملا۔
تصنيفات:
آپ کی تصنیفات کی تعداد بے شمار ہے۔ علم لغت، حدیث، فقہ اور دوسرے علوم میں آپ نے متعدد کتابیں تصنیف کیں، جن میں سے بعض کا ذکر ذیل میں کیا جا رہا ہے:
➊ مجمع البحرين (علم لغت پر بارہ جلدوں میں)
➋ العباب الزاخر واللباب الفاخر۔
آپ کی یہ کتاب بڑی اہمیت کی حامل ہے لیکن افسوس کہ غیر مکمل ہے۔
علامہ سیوطی اس کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: «أعظمُ كتابٍ أُلِّفَ فى اللغة بعد عَصْرِ الصحاح كتابُ المُحْكَم والمحيط الأعظم لأبي الحسن على بن سِيدَه الأندلسي الضَّرير ثم كتابُ العُباب للرضي الصَّغاني.» [المزهر فى علوم اللغه وانواعها: 1/ 76]
(زمانۂ الصحاح کے بعد لغت میں جو سب سے عظیم کتاب لکھی گئی وہ ابو الحسن علی بن سیدہ الاندلسی الضریر کی کتاب المحکم والمحیط الاعظم ہے، پھر رضی صغانی کی کتاب العباب ہے۔)
یہ دونوں آپ کی مشہور کتابیں ہیں۔
بعض دوسری کتابیں ہیں: النوادر في اللغات (بعض مصادر میں ”الشوارد“ اور بعض میں ”الشواذ“ آیا ہے) الأضداد، العروض، أسماء الأسد، أسماء الذئب، مشارق الأنوار في الجمع بين الصحيحين، در السحابۃ في وفيات الصحابۃ، شرح البخاري، الضعفاء، الفرائض، التکملۃ علی الصحاح، مختصر الوفیات، مناسک الحج وغیرہ۔
وفات:
73 سال کی عمر میں 19 شعبان سنہ 650 ہجری میں بغداد میں آپ کی وفات ہوئی۔ وفات سے پہلے وصیت کی تھی کہ آپ کو مکہ مکرمہ لایا جائے اور وہیں دفن کیا جائے۔ بلکہ بغداد سے مکہ مکرمہ لانے والوں کے لیے آپ نے پچاس دینار بھی چھوڑا ہوا تھا۔ دیکھیں: [الوافي بالوفيات 12/151-152، الجواهر المضيئه 1/201-202 وغيره]
اللہ تعالی آپ کی قبر کو نور سے بھر دے، لغزشوں کو معاف فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔