صحيح البخاري
امام بخاری رحمہ اللہ کے اساتذہ و شیوخ از عبدالرشید عراقی:
تحریر: عبدالرشید عراقی رحمہ اللہ
امام بخاری رحمہ اللہ رحمہ الله کے اساتذہ و شیوخ کی تعداد بہت زیادہ ہے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام صاحب کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ:
میں نے 1080 آدمیوں سے حدیثیں لکھیں ان میں سب کے سب محدث تھے۔ آپ کے چند مشہور اساتذہ کا مختصر تذکر ہ کیا جاتا ہے۔
امام محمد بن سلام بیکندی:۔
ان کا شمار ممتاز محدثین کرام میں ہوتا ہے۔ امام عبداللہ بن مبارک اور امام سفیان بن عینیہ رحمہ الله کے شاگرد تھے۔ امام مالک بن انس کے ہم عصر تھے۔ علوم اسلامیہ کی تحصیل واشاعت میں 80 ہزار درہم صرف کئے 225 ہجری میں وفات پائی۔
امام عبداللہ بن محمد مسندی: ان کا شمار بھی ممتاز محدثین کرام میں ہوتا ہے۔ امام سفیان بن عینیہ رحمہ الله اور امام فضیل بن عیاض کے شاگرد تھے۔ 112ھ میں پیدا ہوئے اور 229 ہجری میں ان کا انتقال ہوا۔ ارباب سیر اور محدثین کرام نے ان کی عدالت وثقاہت اور حفظ وضبط کا اعتراف کیا ہے۔
یحییٰ بن معین رحمہ الله:۔ فن حدیث میں ایک اہم شعبہ اسماء الرجال ہے۔ اس میں حدیث کے رواۃ پر اس حیثیت سے بحث ہوتی ہے۔ کہ کون راوی قابل اعتماد ہے۔ اور کون ناقابل اعتماد یا راوی کی اخلاقی زندگی کیسی ہے۔ اس میں عقل وفہم کا ملکہ کس قدر ہے۔ اس کے علم اور قوت حافظہ کا کیاحال ہے۔ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ اس فن کے امام ہی نہیں بلکہ امام الائمہ سمجھے جاتے ہیں۔ یحیٰ بن معین رحمہ الله کے اساتذہ میں امام عبداللہ بن مبارک، امام وکیع بن الجراح اور یحیٰ بن سعید القطان کے نام ملتے ہیں۔ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے اپنی ساری زندگی صحیح اور غیر صحیح روایات کی تمیز کرنے میں صرف کر دی۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (م241ھ) جو آپ کے تلامذہ میں شامل ہیں فرمایا کرتے تھے جو روایت یحییٰ بن معین رحمہ الله کو معلوم نہ ہو اس کی صحت مشکوک ہے۔ امام یحیٰٰ بن معین رحمہ الله نے 233 ہجری میں مدینہ منورہ میں انتقال کیا۔
امام علی بن مدینی رحمہ الله: امام علی بن مدینی کا شمار اکابر محدثین کرام میں ہوتا ہے۔ جرح وتعدیل کے امام تھے۔ آپ کے اساتذہ میں یحییٰ بن سعید القطان۔ سفیان بن عینیہ امام عبدالرحمٰن بن مہدی (م198 ہجری) اور امام ابوطیالسی کے نام ملتے ہیں۔ امام علی بن مدینی رحمہ الله کے علم وفضل، تبحر علمی، حفظ وضبط اور عدالت وثقاہت کا علمائے فن نے اعتراف کیا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ الله نے امام ابوعبدالرحمٰن احمد بن شعیب نسائی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے علی بن مدینی رحمہ الله کو علم حدیث کے لئے پیداکیا۔
امام علی بن مدینی رحمہ الله اخلاق وعادات میں سلف کا نمونہ تھے۔ ان کی زندگی کا ہر گوشہ اتنا پاکیزہ اور پرکشش تھا کہ
”ان کی چال ڈھال، نشست و برخاست، ان کے لباس کی کیفیت غرض ان کے ہر قول وعمل کہ لوگ لکھ لیا کرتے تھے۔
ان ہی اوصاف کا کرشمہ تھا۔ کہ جب تک ان کا قیام بغداد میں رہتا۔ سنت کا چرچا بڑھ جاتا۔ اور شیعت کا زور گھٹ جاتا اور جب آپ بغداد سے بصرہ چلے جاتے تو شیعت کا زور دوبارہ ہو جاتا۔ حافظ ابن حجر عسلقانی رحمہ الله نے امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ۔
امام علی بن مدینی نے 24 ہجری میں انتقال کیا۔
امام اسحاق بن راہویہ: امام اسحاق بن راہویہ کا شمار ان اساطین امت میں ہوتا ہے جنھوں نے دینی علوم خصوصاًً تفسیر حدیث کی بےبہا خدمات سر انجام دیں۔ آپ کے اساتذہ میں امام عبداللہ بن مبارک (م181ھ)، امام وکیع بن الجراح اور امام یحییٰ بن آدم کے نام ملتے ہیں۔ امام اسحاق بن راہویہ کو ابتداء ہی سے علم حدیث سے شغف تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ان کو تفسیر وفقہ میں دسترس تھی۔ خداداد استعداد وصلاحیت اور قوت حافظہ سمیت حدیث کے ساتھ ان کے شغف وانہماک نے ان کو تبع تابعین کے زمرے میں ایک ممتاز حیثیت کا مالک بنا دیا تھا۔ ممتاز محدثین کرام ان کے فضل وکمال اور تبحر علم کے معترف تھے۔ خطیب بغدادی رحمہ الله لکھتے ہیں۔ کہ سنت کو زندہ کرنے میں اسحاق بن راہویہ کا بہت حصہ ہے۔
عادات اخلاق اور زہد وتقویٰ کے اعتبار سے وہ بہت ممتاز تھے اور علمائے کرام نے ان کے صدق وصفا، ورع وتقویٰ اور خشیت الٰہی کا اعتراف کیا ہے۔
امام اسحاق بن راہویہ فقہ میں ایک مسلک کے بانی تھے جسے اسحاقیہ کے نام سے پکارا جاتا ہے ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔
اسحاق بن راہویہ امام وقت تھے ایک گروہ ان کی تقلید کرتا تھا اور ان کے مسلک کے مطابق مسائل کا استنباط اور اجتہاد کرتا تھا۔
امام اسحاق بن راہویہ نے 77 برس کی عمر میں 238ھ میں انتقال کیا۔
امام قتیبہ بن سعید: امام قتیبہ بن سعید ثقفی 150ھ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے اساتذہ میں امام مالک بن انس، امام وکیع بن الجراح اور امام لیث بن سعد کے نام ملتے ہیں۔ 23 سال کی عمر میں سماع حدیث کے لئے سفر کیا علمائے کرام نے ان کے علم وفضل اور تبحر علم کا اعتراف کیا ہے۔
علامہ عبدالحئی بن العماد الحنبلی لکھتے ہیں۔ «إليه المنتهى فى الثقة ثقات» میں ان کا آخری درجہ تھا۔
اور حافظ شمس الدین ذہبی نے ان کو الشیخ الحافظ محدث خراسان لکھا ہے۔ اما قتیبہ بن سعید نے 2شعبان 240 ھ میں 91 سال کی عمر میں وفات پائی۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ:۔ امام احمد بن حنبل رحمہ الله 164ھ میں بغداد میں پیدا ہوئے۔ تین سال کے تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہوا۔ بچپن میں قرآن مجید حفظ کیا۔ اس کے بعد تحصیل علم کے لئے کوفہ، بصرہ، مکہ، مدینہ، یمن، شام، اور جزیرہ کا سفر کیا۔ آپ کے اساتذہ میں امام ابویوسف، ابوحازم واسطی اور امام محمد بن ادریس شافعی کے نام ملتے ہیں۔
40 سال کی عمر میں (204ھ) میں انہوں نے حدیث کا درس دینا شروع کیا۔ یہ بھی ان کا کمال اتباع سنت تھا کہ انہوں نے عمر کے چالیسویں سال جو سن نبوت ہے علوم نبوت کی اشاعت شروع کی۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی زندگی زہد وتوکل میں یکتائے روزگار تھی۔ تواضح ومسکنت میں بھی آپ اپنی مثال آپ تھے۔ مسئلہ ”خلق القرآن“ میں ان کی ثابت قدمی کی وجہ سے تمام عالم اسلام ان کی شہرت سے معمورتھا۔ علمائے کرام اور معاصرین نے ان کے علم وفضل حفظ وضبط، عدالت وثقاہت زہد ورع اور تقویٰ وطہارت کا اعتراف کیا ہے۔ امام ابونعیم اصفہانی (م430ھ) نے امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ۔
میں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ جیسا متقی نہیں دیکھا۔ میں 50 سال ان کے ساتھ رہا۔ انہوں نے کبھی ہمارے سامنے اپنی صلاح وخیر پر فخر نہیں کیا۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی تصانیف میں مسند احمد سب سے زیادہ مشہور ہے۔ یہ حدیث کا سب سے ضخیم مجموعہ ہے۔ اس میں 700 صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی روایات ہیں۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے 77 سال کی عمر میں 12 ربیع الاول 214 ہجری میں بغداد میں انتقال کیا۔ نماز جنازہ میں آٹھ لاکھ مرد اور 60 ہزار عورتیں شامل تھیں۔
. . . اصل مضمون دیکھیں . . .
شمارہ محدث، اگست 1992ء