صحيح البخاري
الجامع الصحيح اور تكرار حديث / حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا بیان:
تحریر: حضرت مولانا مفتی محمد عبدۃ الفلاح حفظ اللہ
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کی بنیاد چونکہ فقہی ابواب پر رکھی ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ استنباط کے لیے مختلف ابواب میں احادیث کی تقطیع کی گئی ہے اور ایک ہی حدیث کو متعدد تراجم کے تحت مکرر لایا گیا ہے حتیٰ کہ ایک ہی حدیث کو دس سے زیادہ مرتبہ لانا پڑا ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بریرہ والی حدیث تو بیس سے زیادہ مرتبہ تکرار ہو گئی ہے تاہم تکرار محض استنباط تک محدود نہیں رہا بلکہ اس سے اسناد کو فروغ ہوا حدیث اور طرق حدیث کا احصاء ہوتا گیا اور اختلاف الفاظ بھی سامنے آیا جو نہایت فوائد حدیثیہ ہیں چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ الجامع الصحیح میں احادیث تو مکرر ہیں لیکن کوئی حدیث بعینہ پہلے سند و متن کے ساتھ مکرر نہیں ہے بلکہ اسناد و متن میں تغایر پایا جاتا ہے حتیٰ کہ اصطلاح محدثین میں وہ دو حدیثیں شمار ہوتی ہیں اور اگر مخرج حدیث تنگ ہو جائے اور اسناد و متن میں شرط صحیح کے مطابق تغایر ناممکن ہو جائے تو امام بخاری رحمہ اللہ حدیث کو متعلق اور مختصر کر دیتے ہیں تاکہ بعینہ تکرار سے اجتناب ہو سکے۔ اس اسلوب اور تتبع کے مطابق صحیح بخاری میں شاذ و نادر کے سوا کوئی حدیث بعینہ مکرر نہیں ہے الجامع الصحیح کے بعض نسخوں میں کتاب الحج ”باب تعجیل الوقوف“ میں امام بخاری رحمہ اللہ کا مقولہ ہے:
«قال ابوعبد الله يزاد فى هذا الباب حديث مالك عن ابن شهاب ولكن لا اريد ان ادخل معادا .»
”ابواسمعیٰل البخاری نے فرمایا: اس باب میں ابن شہاب کی امام مالک سے بھی حدیث آتی ہے لیکن میں اس تکرار کے خوف سے دوبارہ ذکر نہیں کرنا چا ہتا۔“
اس پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ الجامع الصحیح میں بھی حدیث تکرار کے ساتھ عمداً نہیں لائے اور اگر بلاقصد کوئی حدیث مکرر پائی گئی ہے تو وہ شاذ و نادر ہے علامہ قسطلانی رحمہ الله نے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے ایک نوشتہ کے حوالہ سے 21 حدیثیں ایسی نقل کی ہیں جن میں امام بخاری رحمہ اللہ نے اس قاعدہ کی مخالفت کی ہے اور پھر ان پر ایک حدیث کا اضافہ کیا ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ کے اس «تفن فى الروايه» کا مشاہدہ حضرت عبداللہ بن مسعود کی حدیث «من حلف على يمين» پر نظر ڈالنے سے بخوبی ہو سکتا ہے امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو اپنی صحیح میں دس سے زیادہ مقامات پر لائے ہیں مگر ہر جگہ سند یا متن میں فائدہ حدیثیہ پایا جاتا ہے صرف دو مقام میں بعینہ مکرر ہے۔
علامہ المزی نے اطراف میں اس حدیث کو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی سند میں بھی ذکر کیا ہے اور لکھا ہے:
➊ «اخرجه فى الشهادات [26] عن موسيٰ بن اسماعيل عن عبد الوا حد بن زياد عن الاعمش عن شقيق عنه» [7/36]
مگر زیادہ تر اس کی اسانید کو مسند الاشعت بن قیس الکندی میں مقروناً بعبداللہ بن مسعود مفرداً ذکر کیا ہے رواۃ فی الشرب والمساقات۔
➋ «عن عبدان عن ابي حمزه وفي الاشخاص . . . وفي الشهادات»
➌ «عن محمد بن سلام عن ابي معاويه . . . وفي الاشخاص ايضا»
➍ «عن بشربن خالد عن غند ر عن شعبة . . . وفي النذور»
➎ «عن موسيٰ . . . وفي التفسير»
➏ «حجاج بن المنهال كلاهما عن ابي عوانه عن الاعمش وفي الرهن»
➐ «عن قتيبه عن جرير عن منصور . . . وفي الايمان»
➑ «عن بندار عن ابن ابي عدي عن شعبة . . . وفي الاحكام»
➒ «عن اسحاق بن نصر كلاهما عن ابي وائل عنه به»
اور چار دوسرے مواضع ہیں علامہ مزی کے حوالہ سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اسانید اور بعض مواضع میں متن میں قدرے تغیر ہے مکرر و مواضع میں سند اور متن ایک ہے۔
. . . اصل مضمون دیکھیں . . .
شمارہ محدث جنوری 1993، امام بخاری اور الجامع الصحیح