صحيح البخاري

الجامع الصحیح کی تالیف، تالیف کی ابتداء، بواعث تالیف، آغاز اور تکمیل، تراجم ابواب:
تحریر: حضرت مولانا مفتی محمد عبدۃ الفلاح حفظ اللہ
تالیف کی ابتداء
ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ امام محدثین نے تقریباً اٹھارہ سال کی عمر میں تصنیف و تالیف کا آغاز کر دیا تھا اور کتاب قضایا الصحابۃ والتابعین اور توریخ ثلاثہ کے مسؤدات حجاز میں ہی تیار کر لیے تھے اور پھر اپنی تمام احادیث صحیحہ کو المبسوط کے نام سے تالیف کر لیا تھا اب وقت کا تقاضا تھا کہ ایک ایسی کتاب تالیف کی جائے جس میں ان احادیث صحیحہ کو الگ جمع کیا جائے جن کی صحت پر اب تک کے محدثین متفق چلے آ رہے ہیں اور ان میں آثار صحابہ و تا بعین کی آمیزش بھی نہ ہو جیسا کہ مؤطا وغیرہ کتب میں احادیث مرفوعہ اور آثار و فتاوی کو جمع کیا گیا ہے۔
بواعث تالیف:
امام بخاری رحمہ اللہ سے پہلے مسانید اور جوامع جمع ہو چکی تھیں اور مصنفات کے نام سے مجموعے تیار ہو چکے تھے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے سے پہلے محدثین کی مساعی پر نظر ڈالی مؤطا امام مالک کو دیکھا اور جانچا کہ اس میں فقہی تراجم کے تحت احادیث کو جمع کیا گیا ہے اور احادیث صحیحہ کے ساتھ فتاویٰ و آثار صحابہ و تابعین رضوان اللہ عنھم اجمعین کو مخلوط کر دیا گیا ہے اور پھر ہر باب میں عمل اھل مدینہ نمایاں نظر آتا ہے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ جامع صحیح بخاری کے اسباب تالیف پر بحث کرتے ہو ئے لکھتے ہیں:
«قال ابن حجر رحمه الله: * لما رأى البخاري رحمه الله هذه التصانيف ورواها وانتشق رياها واستجلى محياها، وجدها بحسب الوضع جامعة بين ما يدخل تحت التصحيح والتحسين والكثير منها يشمله التضعيف، فلا يقال لغثه سمين، فحرك همته لجمع الحديث الصحيح الذى لا يرتاب فيه أمين .»
پس جب امام بخاری رحمہ اللہ نے ان تصانیف کو دیکھا اور ان کو روایت کیا اور ان کی آبیاری کی اور ان کے باوجود کو شیریں جانا اور ان کو وضع کے اعتبار سے اس طرح پایا کہ ان میں بعض صحیح اور بعض حسن کے درجے میں داخل ہیں اور اکثر ان میں سے ضعیف ہیں۔ آپ نے صحیح حدیث جس کی صحت میں کوئی امانت دار شک نہیں کر سکتا کو جمع کرنے کے لیے اپنی ہمت کو حرکت دی، شاہ ولی اللہ دہلوی نے شرح التراجم اور اپنی دیگر تصنیفا ت میں بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے وہ لکھتے ہیں:
«بايد دانست كه بخاري بعد ماتين ظاهر شد و قبل ازوے علماء درفنون چند از علوم و لينه تصانيف ساخته بودند امام مالك و سفيان ثوري درفقه تصنيف كرده بودند و ابن جريج در تفسير وابوعبيده در غريب قرآن و محمد بن اسحاق و موسيٰ بن عقبه در سيرا بن مبارك در زهدو مواعظ و كسا ئي در بدء الخلق و قصص انبياءؑ و يحييٰ بن معين وغيراو در معرفت احوال اصحاب و تابعين رضوان الله عنهم اجمعين وجمع ديگر رسا ئل داشتدا در رؤيا وادب و شمائل و اصول حديث و اصل فقه ورد بر متبد عين مثل جهميه بخاري ايں همه علوم مدونه راتامل فر مود و جزئيات و كلما ت را انتقاء نمود پس قدرے از علوم كه با حا ديث صحيحه كه بر شرط بخاري است بطريق صراحت يا دلالت يافت در كتاب خود آور دتابدست مسلماناں درا امهات ايں علوم حجت قاطعه بوده باشد كه در آن تشكيك را مد خل نه بود»
یعنی دو سال کے بعد جب امام بخاری رحمہ اللہ کا زمانہ آیا تو انہوں نے دیکھا کہ بھت سے علوم و دینی فنون جمع ہو چکے ہیں اور متعدد علماء نے مختلف الانواع مجموعے تیار کر لیے تھے امام بخاری رحمہ اللہ نے ان مدونہ علوم کو غور سے دیکھا تو انہیں خیال پیدا ہوا کہ کیوں نہ ان تمام فنون کو ایک مختصر اور جامع کتاب میں جمع کر دیا جائے پھر اس اثنا میں امام المحدثین کے شیخ محدث اسحاق بن راھوایہ نے بھی امام بخاری رحمہ اللہ کی مقدرت علمی اور معرفت حدیث میں کمال نمو کے پیش نظر ان پر زور دیا کہ حدیث میں ایک مختصر جامع کتاب کی ضرورت ہے جس سے امام بخاری رحمہ اللہ کا عزم پختہ ہو گیا اور ساتھ ہی امام بخاری رحمہ اللہ نے خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل کیا اور دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں ایک پنکھا ہے جس سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مکھیاں اڑا رہے ہیں جس کی تعبیر یہ بتائی گئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے کذب بیانی کی آمیز ش کو دور کریں گے۔ الغرض یہ جملہ اسباب و بواعث تھے جو امام بخاری رحمہ اللہ کے لیے صحیح کی تالیف کا سبب ہے چنانچہ انہوں نے اس کام کا آغاز کر دیا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«وقوي عزمه على ذلك ماسمعه من أستاذه أمير المؤمنين فى الحديث والفقه إسحاق بن إبراهيم الحنظلي المعروف بابن راهويه وذلك فيما أخبرنا أبو العباس - وذكر إسناده إلى البخاري - قال: كنا عند إسحاق بن راهويه فقال: لو جمعتم كتاباً مختصراً لصحيح سنة رسول الله '، قال فوقع فى قلبي فأخذت فى جمع الجامع الصحيح .»
اور اس پر آپ کا عزم اس وقت پختہ ہو گیا جب آپ نے اپنے استاد حدیث اور فقہ میں امیر المؤمنین اسحاق بن ابرا ہیم المعروف بابن راہویہ سے سنا کہ انہوں نے فرما یا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں ایک مختصر کتاب جمع کر دیں امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ با ت میرے دل کو لگی تو میں نے «الجامع الصحيح المسند المختصر من حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم وسنة وايامه» کو جمع کرنے کا آغاز کر دیا یعنی استاد کی یہ بات میرے دل میں اتر گئی اور میں نے الجامع الصحیح کی تالیف کا آغاز کر دیا۔
الجامع الصحیح کا پور انام:
الجامع الصحیح یا صحیح البخاری اس کتاب کا مختصر نام ہے اور امام نے خود ہی الجامع الصحیح کے نا م سے اس کو موصوم کیا ہے تاہم اس کتاب کا پورا نام بروایت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس طرح مذکور ہے:
المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه
مگر ابن صلاح اور نووی نے الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ وایامہ ذکر کیا ہے یعنی المسند کو الصحیح پر مقدم ذکر کیا۔ ان دونوں میں کوئی جوہری اختلاف نہیں ہے نور الدین عتر نے اپنے رسالہ میں ابن صلاح والی روایت کو قرین قیاس اور راجح بتایا ہے کیونکہ اکثر نے اسی کو ذکر کیا ہے مگر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی روایت کے مؤیدات موجود ہیں اول یہ کہ خود مصتف نے الجامع الصحیح کا لفظ ذکر کیا ہے اور یہ مختصر نام متعدد مراجع میں مذکور ہے لہٰذا راجح روایت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی ہے۔
آغاز اور تکمیل:
امام المحدثین نے الجامع الصحیح کی تالیف کا آغاز تقریباً 216 ھ یا 217 ھ کو کیا جبکہ آپ کی عمر 23 سال تھی اور سولہ سال کی لگاتار محنت سے اس کو مکمل کیا اور تین مرتبہ اس پر نظر ثانی کی چنانچہ امام بخاری کے وراق کا بیان ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا:
«. . صنفت الصحيح فى ست عشرة سنة وجعلته حجة فيما بيني و بين الله تعالى .»
میں نے اس جامع کو سولہ سال میں جمع کیا اور چھ لاکھہ حدیث سے منتخب کیا اور میں نے اپنے اور اللہ کے مابین حجت بنایا۔ پھر جب تکمیل کے بعد اپنے کبار اساتذہ اور محدثین عصر کے سامنے پیش کی جن میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (241ھ) یحییٰ بن معین (234ھ) اور علی بن المدینی (234) خاص طور پر قابل ذکر ہیں تو سب نے اس کی تحسین کی اور اس کی احادیث کو صحیح قرارد یا چنانچہ عقیلی کا بیان ہے:
«فاستحسنوه و شهدوا له بالصحة إلا أربعة أحاديث . قال العقيلي: والقول فيها قول البخاري وهى صحيحة .»
پس علماء نے اس کی تحسین کی اور اس کی صحت کی گواہی دی سوائے چار احادیث کے اور ان کے بارے میں بخاری کا قول ہی معتبر ہے کہ وہ صحیح احادیث ہیں علامہ اسماعیلی اپنی کتاب المدخل الی المستخریج میں لکھتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ کی الجامع واقعی سنن صحیحہ کی جامع ہے اور مسائل مستنبط پر حاوی ہے اور ایسی کتاب وہی لکھ سکتا ہے جو علم حدیث کا ماہر ہو اور رواۃ حدیث کے تراجم پر پور ا عبور رکھتا ہو اور جسے علل الحدیث فقہ اور لغت پر رسوخ حاصل ہو۔ ابن عدی امام بخاری رحمہ اللہ سے ناقل ہیں میں نے اپنی الجامع میں صرف صحیح حدیثیں جمع کی ہیں اور بہت سی صحیح احادیث کو چھوڑ دیا ہے تاکہ طوالت نہ ہو۔ پھر احتیاط کا یہ عالم تھا کہ اپنی الصحیح میں کو حدیث اس وقت تک درج نہ کرتے جب تک کہ لکھنے سے پہلے غسل کر کے دوگانہ ادا نہ کر لیتے اور اس کی صحت کا یقین نہ ہو جاتا۔ کتاب کی تالیف کا آغاز بیت الحرام میں ہوا اور تراجم ابواب مسجد نبوی میں روضہ اور منبر کے درمیان بیٹھ کر لکھے۔
چونکہ یہ کتاب یحییٰ بن معین (234ھ) کی نظر سے بھی گذری ہے معلوم ہوا کہ 233ھ تک مکمل ہو گئی تھی کیونکہ ابن معین کی وفات 233 یا 234ھ ہے۔
تراجم ابواب:
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب استخراج مسائل فقہیہ کو موضوع بنایا ہے اور اس مقصد کی تکمیل کے لیے اپنی ساری علمی اور دماغی توانائیاں فقہ الحدیث کے مرتب کرنے پر صرف کر دی اور تراجم ابواب میں جو فقہ مرتب کی ہے وہ فقہ المذاہب اور تقلیدی انداز کی فقہ نہیں ہے بلکہ مصنف کے اپنے اجتہاد و استنباط کے ثمرات ہیں اور یہ مصنف کا یسا کارنامہ ہے جسے ہم پہلی اور آخری کوشش کہہ سکتے ہیں اس لیے واقعہ میں یہ مقولہ صحیح ہے۔
«فقه البخاري فى تراجمه بخاري» کی فقہ اس کے تراجم میں ہے۔
لیکن امام بخاری رحمہ اللہ سید الفقہاء تھے اور ان کی فقہ دیکھنا مقصود ہو تو تراجم بخاری پر نظر ڈال کر دیکھ لیں اس بنا پر نعیم بن حماد فرماتے ہیں:
«محمد بن إسماعيل فقيه هذه الأمة .»
کہ امام بخاری رحمہ اللہ اس امت کے فقیہ تھے کتاب الجامع الصحیح کے اس فقہی امتیاز کا اعتراف شارحین اور علما ء نے برملاکیا ہے امام نووی رحمہ الله لکھتے ہیں:
«وليس مقصود البخاري الاقتصار على الأحاديث فقط بل مراده الاستنباط منها والاستدلال لأبواب ارادها ولهذا المعنى اخلى كثيرا من الأبواب عن إسناد الحديث واقتصر فيه على قوله فيه فلان عن النبى صلى الله عليه و سلم أو نحو ذلك وقد يذكر المتن بغير إسناد وقد يورده معلقا وإنما يفعل هذا لأنه أراد الاحتجاج للمسئلة التى ترجم لها .»
محمد بن اسماعیل اس اُمت کے فقیہ ہیں ان کی کتاب سے مقصود صرف صحیح حدیث پر اقتضار اور کثرت متون نہیں بلکہ اس سے مراد ان سے استنباط اور ان ابواب کے لیے استدلال ہے جن کا مصنف نے ارادہ کیا خواہ ان کا تعلق اصول سے ہو یا فروغ سے زہد سے ہو یا آداب سے اَمثال سے ہو یا دیگر فنون سے اس مقصد کے لیے بہت سے ابواب کو حدیث کی سندوں سے خالی کر دیا ہے اس لفظ پر اختصار کیا ہے «فلان الصحابي عن النبى وغير ذالك» اور آپ نے ترا جم میں بہت زیادہ قرآنی آیات ذکر کی ہیں بسا اوقات بعض ابواب میں ان آیا ت پر ہی اقتصار کیا ہے اور ان کے ساتھ کو ئی حدیث ذکر نہیں کرتے۔
دراصل امام بخاری رحمہ اللہ اس نظریہ کے پر زور حامی نظر آتے ہیں کہ کتاب و سنت میں ہر مسئلہ کا حل موجود ہے لہٰذا قیاس و رائے کی ضرورت نہیں امام المحدثین فرماتے ہیں:
«لا أعلم شيئا يحتاج إليه إلا وهو فى الكتاب والسنة .»
میں ایسی کوئی چیز نہیں جانتا جس کی طرف احتیاج ہو اور وہ کتاب و سنت میں نہ ہو۔ اس پر امام بخاری رحمہ اللہ کے وراق نے سوال کیا کہ کیا کتاب وسنت سے ہر مسئلہ کی معر فت ممکن ہے اس پر امام نے فرمایا: کہ ہاں یہ ممکن ہے۔ اور ممکن ہی نہیں بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے الجامع الصحیح میں عملاً اس کا مظاہر ہ بھی کیا ہے اور ایک ایک حدیث پر متعدد تراجم قائم کر کے فقہ الحدیث کے لیے دروازہ کھول دیا ہے جیسا کہ فقہ البخای کے تحت ہم اصول فقہ کی طرز پر اس کی امثلہ پیش کریں گے۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ امام ابن حزم نے فقہ اسلامی میں المحلی لکھ کر اس نظریہ کی تکمیل کر دی ہے۔
. . . اصل مضمون دیکھیں . . .
شمارہ محدث جنوری 1993، امام بخاری اور الجامع الصحیح