صحيح البخاري
’’مرآۃ البخاری“ سے صحیح بخاری کے مختلف نسخوں کا مختصر تعارف:
علامہ حافظ عبد المنان نورپوری رحمہ اللہ کی کتاب ”مرآۃ البخاری“ سے صحیح بخاری کے مختلف نسخوں کا مختصر تعارف
حافظ عبد المنان نورپوری رحمہ الله صاحب لکھتے ہیں:
کتاب بخاری کے نسخے:
بیان کیا جاتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ سے الجامع الصحیح المسند کو نوے ہزار آدمیوں نے سنا ہے۔ مگر جو نسخے ہم تک بسند متصل ان کے شاگردوں کی وساطت سے پہنچتے ہیں، وہ چار ہیں۔
نسخہ اول ؛ حافظ فربری کا نسخہ:
ان کا نام ابوعبداللہ محمد بن یوسف بن مطر بن صالح بن بشر فربری ہے۔ 320 ہجری میں فوت ہوئے۔ انہوں نے کتاب بخاری کو امام بخاری رحمہ اللہ سے دو مرتبہ سنا ہے، ایک مرتبہ بخارا میں اور دوسری مرتبہ فربر میں سنا۔ فربر میں امام بخاری رحمہ اللہ سے 248ھ میں الجامع الصحیح کو سنا۔ اور 252ھ میں بخارا میں سنا۔ فربری والا نسخہ باقی تینوں نسخوں سے زیادہ شہرت یافتہ ہے۔ فربری سے آگے اس نسخہ کو نقل کرنے والے نو افراد ہیں۔ ان نو آدمیوں میں سے تین ابواسحاق ابراہیم بن احمد مستملی، ابومحمد عبداللہ بن احمد سرخسی اور ابوالہیثم محمد بن مکی کشمہینی مشہور ہیں۔ ان تینوں کے آگے بیان کرنے والے بزرگ ابوذر عبداللہ بن احمد ہروی ہیں۔ اس نسخہ کا نام نسخہ ابی ذر ہے۔ فربری سے اس نسخہ کو نقل کرنے والے 9 آدمی ہیں۔ ان سے آگے اس نسخہ کو سترہ آدمی نقل کرتے ہیں۔ اگر شاگردوں کے لحاظ سے نسخوں کا اعتبار کیا جائے تو فربری والا نسخہ سب سے زیادہ معتبر ہے۔ فربری کے شاگردوں کے شاگردوں کے سترہ نسخے ہو جائیں گے۔ ان سترہ میں سے ابوذر والا نسخہ زیادہ قابل اعتبار ہے۔
نسخہ ثانیہ؛ حافظ نسفی کا نسخہ:
ان کا نام ابراہیم بن معقل بن حجاج نسفی ہے۔ یہ امام بخاری رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں۔ 294ھ میں فوت ہوئے۔ انہوں نے جامع بخاری کو امام بخاری رحمہ اللہ سے براہ راست سنا ہے۔ ابوعلی جیانی اپنی کتاب ”تقیید المہمل“ میں لکھتے ہیں کہ حافظ نسفی نے ساری کتاب امام بخاری رحمہ اللہ سے نہیں سنی، چند اوراق رہ گئے تھے۔ وہ اوراق امام بخاری رحمہ اللہ سے اجازۃ نقل کرتے ہیں۔ اس طرح یہ معمولی سا نقص رہ گیا۔ فربری نے تمام کتاب امام بخاری رحمہ اللہ سے سنی ہے تو فربری کا نسخہ زیادہ عمدہ ہے۔ ابراہیم بن معقل کے متعلق مشہور ہے کہ یہ بزرگ حنفی تھے۔ ان کے آگے ہمیں یہ نسخہ صرف ایک شاگرد کے واسطہ سے پہنچ رہا ہے۔ اس کے برعکس فربری سے آگے نو آدمی نقل کرتے ہیں۔ اس وجہ سے حافظ نسفی کے اس نسخہ کو وہ شہرت حاصل نہ ہو سکی جو نسخہ فربری کو ہوئی۔
(۳) نسخہ ثالثہ؛ حافظ نسوی کا نسخہ:
ان کا نام حماد بن شاکر نسوی ہے۔ انہوں نے کتاب بخاری کو امام بخاری رحمہ اللہ سے براہ راست سنا ہے۔ لیکن کچھ مقامات کی سماعت ان سے بھی رہ گئی۔ ان کی وفات تقریباًً 290ھ میں ہوئی۔ ان کے متعلق بھی بیان کیا جاتا ہے کہ یہ بزرگ حنفی تھے۔ ان سے آگے اس نسخہ کو بیان کرنے والا صرف ایک شخص ہے۔ تو فربری کے نسخہ کی نسبت حماد بن شاکر کے نسخہ کو بھی وہ شہرت حاصل نہ ہو سکی جو نسخہ فربری کو حاصل ہوئی۔
(۴) نسخہ رابعہ؛ حافظ بزدوی کا نسخہ:
ان کا نام ابوطلحہ منصور بھی محمد بن علی بن قرینہ بزدوی ہے۔ حافظ بزدوی 329ھ میں فوت ہوئے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے شاگردوں میں سے آخر میں فوت ہونے والے شاگردوں میں شامل ہیں۔ ان کے نسخہ کو بھی نقل کرنے والا ایک ہی شخص ہے۔ اس وجہ سے اس نسخہ کو بھی وہ شہرت حاصل نہ ہو سکی جو نسخہ فربری کو حاصل ہوئی۔