امام بخاری اور امام مسلم ہم عصر ہیں۔ دونوں نے فقہی ترتیب پر احادیث کے صحیح مجموعے کی ضرورت کو ایک ہی دور میں محسوس کیا اور اپنا اپنا مجموعہ حدیث مرتب کیا۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں پر امت کا اجماع ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی بحث چلتی رہی ہے کہ دونوں میں سے ترجیح کس کتاب کو حاصل ہے۔ شارح مسلم امام نوویؒ فرماتے ہیں: علماء اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن مجید کے بعد صحیح ترین کتابیں صحیح بخاری اور صحیح مسلم ہیں، امت نے انھیں اسی حیثیت میں قبول کیا ہے۔ صحیح بخاری دونوں میں سے صحیح تر ہے، فوائد میں عیاں اور دقیق دونوں قسم کے معارف میں بڑھ کر ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ امام مسلم امام بخاری سے مستفید ہوتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ علم حدیث میں ان کی کوئی نظیر موجود نہیں۔ مجموعی حیثیت سے صحیح بخاری کو صحیح مسلم پر ترجیح حاصل ہے اور یہی درست نقطہ نظر ہے جس کے جمہور علماء، ماہرین فن اور نکتہ سنجانِ علم حدیث قائل ہیں۔ امام ابوعلی بن حسین نیشا پوری اور مغرب (شمالی افریقہ کے مسلم ممالک) کے بعض علماء صحیح مسلم کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن جمہور علماء کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ صحیح بخاری ہی کو ترجیح حاصل ہے۔ معروف فقیہ اور نقادِ حدیث حافظ ابو بکر اسماعیلیؒ نے اپنی کتاب ”المدخل“ میں اس بات کو دلائل سے واضح کیا ہے۔۔۔۔۔ [شرح صحيح مسلم للنووي: 33/1]
البتہ صحیح مسلم کے بعض امتیازی پہلو ایسے ہیں جو اسی کتاب کے ساتھ خاص ہیں۔ جن لوگوں نے صحیح بخاری پر صحیح مسلم کو ترجیح دی ہے، ان کے پیش نظر یہی امتیازی پہلو تھے۔ امام نوویؒ فرماتے ہیں: امام مسلم ایک انتہائی فائدہ مند خصوصیت میں متفرد ہیں جو انھی کے شایان شان تھی۔ وہ یہ کہ (ان کی کتاب) استفادے میں آسان ہے۔ انھوں نے ہر حدیث کو ایک ہی جگہ، جو اس کے لائق تھی، درج کیا ہے اور اس کی متعدد سندیں اور روایت شدہ مختلف الفاظ اس کے ساتھ ہی بیان کر دیے ہیں۔ اس سے طالب علم کے لیے مذکورہ حدیث کی تمام صورتوں پر نظر ڈالنا اور ان سے فائدہ اٹھانا آسان ہو گیا ہے۔ اس طریقے سے امام مسلم نے حدیث کے جو طرق (سندیں) ذکر کیے ہیں ان پر قاری کا اعتماد بڑھ جاتا ہے۔ [ شرح صحيح مسلم للنووي: 34/1]