صحیح مسلم اور اس کا امتیاز::
حافظ ابن عساکر اور امام حاکم کہتے ہیں کہ امام مسلم اپنی کتاب صحیح مسلم کو دو اقسام میں مکمل کرنا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ
قسم اول میں طبقۂ اولیٰ کے راویوں کی صحیح احادیث اور قسم ثانی میں طبقہ ثانیہ کی صحیح احادیث لائیں۔ وہ ابھی طبقہ اولٰی پر مشتمل حصہ مکمل کر پائے تھے کہ ان کا انتقال ہو گیا۔ گویا صحیح مسلم ان کی زندگی کے آخری مرحلے کی تصنیف ہے۔
صحیح مسلم ان کے فن کا اوج کمال ہے اور اس سے پہلے کا سارا کام اپنی جگہ مستقل ہونے کے ساتھ ساتھ صحیح مسلم کی تیاری یا بنیاد سازی کا کام بھی کہا جا سکتا ہے۔ رجال، متون اور علل پر مکمل عبور اور تیاری کے بعد ہی ایسی کتاب لکھی جاسکتی ہے جیسی صحیح مسلم ہے۔ اس وقت طالبانِ حدیث کو ایک ایسی کتاب کی تلاش تھی جو دین کے طور طریقوں، احکام، جزا و سزا اور جن چیزوں سے بچنا اور جن کو اپنانا ہے، ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین اور سنن کی مستند روایات پر مشتمل ہو، ان روایات کی سندوں کو اہل علم نے قبول کیا ہو اور یہ روایات حسن ترتیب سے ایک ایسی تالیف میں جمع کر دی گئی ہوں جو غیر ضروری طور پر طویل نہ ہو، اور جو دین کے فہم، تدبر اور استنباط کے حوالے سے دیگر کتابوں سے مستغنی کر دے۔ [مقدمة صحيح مسلم، ص: 4]
امام مسلم نے امت کی اس ضرورت کو محسوس کیا، ایک ایسی کتاب کی اہمیت اور اس کے فوائد پر غور کیا تو بہت بڑے ذخیرۂ حدیث میں سے صحیح ترین احادیث کے نسبتاََ مختصر مجموعے کی ترتیب و تالیف کا بیڑا اٹھایا۔ امام مسلم نے احادیث کے انتخاب کے حوالے سے اپنی کتاب کے لیے بنیادی شرط یہ رکھی کہ حدیث سنداََ متصل ہو، اول سے لے کر آخر تک ثقہ نے ثقہ سے روایت کی ہو اور شذوذ اور علل سے پاک ہو۔