وجہ اول:
امام بخاری جن رجال میں متفرد ہیں، ان کی تعداد چار سو بتیس (432) ہے۔ جن میں متکلم فیہ صرف اسی (80) ہیں۔ جبکہ وہ رجال جن میں امام مسلم متفرد ہیں، وہ چھ سو بیس (620) ہیں، جن میں ایک سو ساٹھ (160) متکلم فیہ رواۃ ہیں۔ تو اس تعداد سے معلوم ہوتا ہے کہ بخاری کی سخت شرط اتقان کی وجہ سے متکلم فیہ رواۃ کی تعداد کم ہے۔ تو اس اعتبار سے بخاری مسلم پر فائق ہے۔
وجہ ثانی:
جن رواۃ سے امام بخاری روایت اخذ کرنے میں متفرد ہیں، ان کی احادیث کثرت سے نہیں لاتے۔ اسی طرح بخاری کے متفرد فیہ رواۃ میں سے کسی کے پاس کوئی بڑا نسخہ نہیں ہے کہ وہ پورے کا پورا یا اس کا اکثر حصہ بخاری نے اپنی کتاب میں درج کردیا ہو۔ ماسوائے عکرمہ عن ابن عباس رضی اللہ عنہ کے۔ لیکن امام مسلم کے متفرد فیہ رواۃ کے پاس کچھ نسخے تھے، تو امام مسلم نے ان نسخوں کی اکثر احادیث ذکر کی ہیں، جیسے: سہیل بن ابی صالح اور حماد بن سلمہ عن ثابت وغیرہ۔ تو یہ لچک بخاری کی نسبت مسلم میں زیادہ ہے۔
وجہ ثالث:
امام بخاری رحمہ اللہ جن متکلم فیہ رواۃ کی حدیث لائے، ان میں اکثر امام بخاری کے استاد ہیں جن سے امام بخاری نے روایت سنی اور حاصل کی۔ امام مسلم رحمہ اللہ کے متکلم فیہ رواۃ اکثر تابعین اور تبع التابعین ہیں جو امام مسلم کے استاد نہیں۔ ظاہر بات ہے کہ استاد کی احادیث میں جانچ پڑتا زیادہ ہوسکتی ہے۔ دور کے راوی کی حدیث میں اتنی تحقیق نہیں ہوسکتی، لہٰذا صحت حدیث میں کمی آجائے گی۔
وجہ رابع:
امام بخاری صرف پہلے طبقہ کی حدیث بیان کرتے ہیں اور طبقہ ثانیہ میں سے انتخاب کرتے ہیں۔ امام مسلم طبقہ اولیٰ اور طبقہ ثانیہ کی تمام احادیث لاتے ہیں اور طبقہ ثالثہ میں سے انتخاب کرتے ہیں۔ اتصال سند میں امام بخاری کا مقام بلند ہے۔ امام بخاری راوی او رمروی عنہ میں لقاء کی شرط لگاتے ہیں، لیکن امام مسلم صرف معاصرت سے اتصال سند قبول کرلیتے ہیں، لقاء کی شرط نہیں لگاتے۔ اتصال سند میں امام بخاری کی شرط قوی اور سخت ہے۔ امام سیوطی نے لکھا ہے کہ امام بخاری نے یہ شرط اپنی کتاب میں حدیث درج کرنے کےلیے لگائی ہے، ورنہ صحت حدیث معاصرت سے ہی ثابت ہوجاتی ہے۔
مولانا انور شاہ کشمیری نے بھی لکھا ہے کہ یہ صحت کی شرط نہیں، لیکن حافظ ابن حجر کی بات سے معلوم ہوتا ہے کہ لقاء والی شرط صحت حدیث کےلیے ہے، وہ فرماتے ہیں: ”واظہر البخاری ہذا المذہب فی تاریخہ وجریٰ علیہ فی صحیحہ۔ “
بہر حال چاروں صورتوں میں بخاری کی احادیث مسلم سے پختہ ہیں۔
نیز عدم علل کے لحاظ سے بھی بخاری کو مسلم پر زیادہ مقام حاصل ہے کیونکہ بخاری ومسلم کی کل منتقد علیہ روایات دو سو دس ہیں، ان میں سے 78 بخاری میں ہیں۔ ان دلائل کی موجودگی میں کسی کے قول کو بلا دلیل کیسے قبول کیا جاسکتا ہے؟
اعتراض نمبر 3:
حافظ ابن حزم اور دیگر مغربی مشائخ مسلم کو بخاری سے افضل سمجھتے ہیں تو اس سے پتہ چلا کہ مسلم کو بخاری پر زیادہ مرتبہ حاصل ہے۔
جواب:
ایک چیز اصحیت ہے اور دوسری چیز افضلیت ہے۔ اصحیت کے لحاظ سے تو بخاری اصح ہے اور سیاق وسباق اور حسن ترتیب کے لحاظ سے مسلم افضل ہے۔
ان دلائل کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ کتب احادیث میں بخاری اصح کتاب ہے۔