مکثرین رواۃ کے پانچ طبقے:
طبقہ اولیٰ:
کثیر الاتقان وکثیر الملازمۃ
جو رواۃ ضبط واتقان بہت زیادہ رکھتے ہیں اور اپنے استاد کے پاس بھی بہت زیادہ دیر ٹھہرے رہے ہیں، سفر وحضر میں ساتھ رہے ہیں۔
اس کی مثال امام زہری کے شاگردوں میں یونس بن یزید ایلی، عقیل بن خالد ایلی، امام مالک بن انس اصبحی، سفیان بن عیینہ، شعیب بن ابی حمزہ اصحاب زہری کثیر ا لضبط اور کثیر الملازمۃ ہیں۔
طبقہ ثانیہ:
کثیر الضبط والاتقان وقلیل الملازمۃ
ضبط واتقان بہت زیادہ رکھتے ہیں لیکن اپنے شیخ کے پاس تھوڑی دیر ٹھہرے۔
امام زہری کے شاگردوں میں اس کی مثال: ابوعمرو عبدالرحمن بن عمرو اوزاعی شامی، لیث بن سعد مصری، عبدالرحمن بن خالد بن مسافر اور ابن ابی ذئب۔ یہ چار شاگردان امام زہری کثیر الضبط والاتقان تو ہیں لیکن زیادہ دیر امام زہری کے پاس نہیں رہے۔
طبقہ ثالثہ:
قلیل الضبط والاتقان وکثیر الملازمۃ
جن میں ضبط اور اتقان کم ہے لیکن اپنے استاد کے پاس زیادہ دیر ٹھہرے۔
امام زہری کے شاگردوں میں ان کی مثال: جعفر بن برقان، سفیان بن حسین اور اسحاق بن یحییٰ الکلبی ہیں۔ یہ سب شاگرد امام زہری کے پاس کافی دیر ٹھہرے رہے لیکن ضبط واتقان ان میں کم ہے۔
طبقہ اربعہ:
قلیل الضبط والاتقان وقلیل الملازمۃ
جن میں ضبط واتقان کم ہے اوراپنے شیخ کے پاس تھوڑی دیر ٹھہرے رہے۔
امام زہری کے شاگردوں میں ان کی مثال: زمعہ بن صالح، معاویہ بن یحییٰ صدفی اور مثنیٰ بن صباح ہیں۔
طبقہ خامسہ:
قلیل الضبط والاتقان وقلیل الملازمۃ مع غوائل الجرح
ضبط بھی کم، ملازمہ بھی کم اور اس کے ساتھ ساتھ جرح بھی ہے۔
امام زہری کے شاگردوں میں اس کی مثال: عبدالقدوس بن حبیب، محمد بن سعید مصلوب۔ یہ اصحاب قلیل الضبط ہیں، قلیل الملازمۃ ہیں اور ان پر جرح بھی ہوئی ہے، بلکہ بعض نے کذاب بھی کہا ہے۔ سنن ابی داؤد میں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے، جس کا مضمون یہ ہے کہ جب رسول اللہﷺ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو عامل بنا کر بھیج رہے تھے تو آپﷺ نے پوچھا: اے معاذ! فیصلہ کس طرح کرے گا؟ تو انہوں نے جواب دیا: کتاب اللہ سے۔ آپﷺ نے پوچھا: کتاب اللہ سے نہ ملے تو؟ پھر انہوں نے جواب دیا: سنت رسول اللہﷺ سے۔ پھر آپ ﷺ نے پوچھا: اگر سنت رسول اللہ بھی نہ ملے تو پھر؟ انہوں نے جواب دیا: میں اجتہاد کروں گا۔ (سنن ابی داؤد: 3592)
اس کی سند میں راوی مجہول ہیں، یہی روایت ابن ماجہ (رقم الحدیث: 55)کے اندر موجود ہے۔
اس حدیث کے متعلق حافظ ابن قیم فرماتے ہیں کہ ابوداؤد سے ابن ماجہ کی روایت صحیح ہے، بلکہ حافظ ابن کثیر نے اسے جید کہا ہے، مگر یہ بات درست نہیں کیونکہ ابن ماجہ کی سند میں محمد بن سعید مصلوب ہے۔
جس طرح امام زہری کے شاگردوں کے پانچ طبقے ہیں، اسی طرح تمام مکثرین راویوں کے شاگردوں کے پانچ طبقے بن سکتے ہیں۔
امام بخاری پہلے طبقہ کی روایت کتاب میں لاتے ہیں۔ اس طبقہ میں جو راوی موجود ہوتا ہے، اس کی روایت اصول میں بھی درج کردیتے ہیں اور دوسرے مقام پر بھی لاتے ہیں۔ دوسرے طبقے سے امام بخاری انتخاب کرتے ہیں۔ پورے طبقے کی حدیث نہیں لاتے۔ ان میں سے جس کی حدیث کو اولیٰ سمجھیں گے، وہی لائیں گے اور کوشش کریں گے کہ اصول میں درج نہ ہو، بلکہ شواہد اور متابعات میں آجائے۔
امام مسلم رحمہ اللہ طبقہ اولیٰ اور ثانیہ کے تمام راویوں کی احادیث درج کرتے ہیں اور طبقہ ثالثہ سے انتخاب کرتے ہیں۔
تو معلوم ہوا کہ صحت میں بخاری مسلم سے اعلیٰ ہے۔
امام ابوداؤد طبقہ اولیٰ، ثانیہ، ثالثہ اور رابعہ کی احادیث لاتے ہیں۔ امام ترمذی طبقہ خامسہ کی احادیث بھی لے آتے ہیں۔
امام حاکم امام بخاری کے متعلق ذکر کرتے ہیں کہ ان کی شرط ہے کہ حدیث عزیز ہو اور غریب حدیث نہیں لاتے، لیکن یہ بات درست نہیں۔ بخاری کی پہلی اور آخری حدیث عزیز نہیں، غریب ہے اور درمیان میں کئی احادیث غریب ہیں۔ اس لیے عزیز لانا اور غریب نہ لانا امام بخاری کی شرط نہیں ہے۔
غیر مکثرین:
غیر مکثرین کے متعلق شیخین کا طریقہ یہ ہے کہ راوی کی ثقاہت، عدالت اور قلت خطاء کو دیکھا جائے گا۔ پھر ان میں سے کچھ ایسے ہیں جن پر قوی اعتماد ہوگیا تو ان کی متفرد احادیث کو نقل کردیا۔ اور ان میں کچھ ایسے ہیں جن پر قوی اعتماد نہیں ہوا تو ایسے راویوں کی وہ احادیث نقل کی ہیں جن میں دوسرے راوی بھی ان کے ساتھ شریک ہیں۔