جامع ترمذی حدیث کی ایک جامع اور مفیدکتاب ہے جس میں روایت و درایت اور فقہ حدیث سبھی کچھ جمع کیا گیا ہے اس کے علاوہ اس میں بہت سی خوبیاں ہیں اور یہ اہم کتب حدیث میں سے ایک ہے اس کی بہت ساری خوبیوں کے سبب بعض اہل علم نے اس کو کتب حدیث میں تیسرا مقام دیا ہے، بہت سارے لوگوں نے سنن ترمذی کی شرحیں لکھی ہیں اور اس پر تعلیقات چڑھائی گئیں اور اس کی مختصرات اور مستخرجات بھی لکھی گئیں جن کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔
أ- شروح جامع ترمذی:
(1) شرح جامع الترمذی للإ مام حسین بن مسعود البغوی (م: 516ھ)، (تاریخ الادب العربی: بروکلمان 1/190، تاریخ التراث العربی: فواد سزکین 1/302)، ان لوگوں نے لکھا ہے کہ اس شرح کا آخری حصہ مکتبہ محمودیہ، مدینہ میں (35) نمبرکے تحت موجودہے۔
(2) عارضۃ الأحوذی فی شرح جامع الترمذی للقاضی ابی بکر بن العربی المالکی (468 - 543 ھ)۔ (مطبوع)
(3) النفح الشذيفی شرح جامع الترمذی لابن سید الناس فتح الدین ابو الفتح الیعمری (م: 734 ھ)۔ یہ شرح مکمل نہ ہو سکی۔ اس کی تکمیل حافظ زین الدین عراقی نے فرمائی، حافظ سیوطی کہتے ہیں کہ عراقی نے بھی اس کو مکمل نہ کیا، یہ المنقح الشذی کے نام سے بھی معروف ہے۔ (مقدمۃ تحفۃ الأحوذی)، ابن طولون نے اس کا نام الفوح الشذيلکھاہے، ابن سید الناس نے کتاب الطہارۃ، باب ماجاء أن الأرض کلہا مسجد إلا المقبرۃ والحمام کے باب کی آٹھویں نمبر کی حدیث تک یہ شرح لکھی اور موت کی وجہ سے پوری نہ کرسکے، اس کے بعد اس کا تکملہ حافظ عراقی نے کیا۔
(4) شرح جامع الترمذی للإ مام ابن رجب البغدادی الحنبلی (706 - 795 ھ)۔ یہ شرح بعض حادثات میں جل گئی، صرف شرح العلل موجود اورمطبوع ہے۔
(5) شرح علل الترمذی لابن رجب (ت: 795ھ) (مطبوع)
(6) إنجاز الوعد الوفی بشرح جامع الترمذی، تالیف: عمر بن علی ابن الملقن (ت: 723- 804ھ)اس کتاب میں صحیحین اور ابوداود پر ترمذی کے زوائد کی شرح ہے، لیکن نامکمل ہے، اور یہ کتاب ابھی تک غیر مطبوع ہے، اور اس کا ایک نسخہ چسٹر پٹی لائبریری، جرمن میں موجودہے۔
(7) العرف الشذی علی جامع الترمذی للحافظ عمر بن رسلان البلقینی (724 - 805 ھ)۔ یہ صرف ایک قطعے کی شرح تھی اور ناتمام۔
(8) تکملۃ النفح الشذی فی شرح الجامع الترمذی لابن سید الناس للامام زین الدین عبد الرحیم بن حسین العراقی (م: 806 ھ)۔ عراقی نے اس شرح کی تبییض کتاب اللباس کے آخر تک کی اور اصل کتاب کا مسودہ عراقی کے خط سے کتاب المناقب تک دار الکتب المصریہ میں (2504 حدیث) میں موجود ہے (نیز ملاخطہ ہو: المعجم المفہرس لابن حجر)۔
(9) شرح جامع الترمذی للحافظ ابن حجر عسقلانی (873 - 852 ھ) (فتح الباری 1/230)۔
(10) العجاب فی تخریج مایقول فیہ الترمذی: وفی الباب للحافظ ابن حجر، اس کا نام اللباب بھی ہے، حافظ سخاوی کہتے ہیں: حافظ ابن حجر نے شروع کے ابواب پر چھ دفتر لکھے۔ اگریہ کتاب مکمل ہوجاتی تو ایک ضخیم جلدمیں آتی۔ (الجواہر والدرر2/666)۔
(11) قوت المغتذی علی جامع الترمذی للحافظ جلال الدین عبد الرحمن بن کمال السیوطی (849 -911 ھ)۔
(12) نفع قوت المغتذی علی جامع الترمذی لعلی بن سلیمان البجمعوی المغربی المالکی (1298 ھ) (مطبوع قاہرہ، دہلی)۔
یہ سیوطی کی شرح کی تلخیص ہے۔
(13) شرح جامع الترمذی لعبد القادر بن اسماعیل الحسنی القادری الحنفی (ت: 1187ھ)۔
(14) منہاج السنن شرح جامع السنن للامام الترمذی، تالیف: محمد فرید زربوری (اس کی ایک جلد مطبوع ہے)
(15) تحقیق وشرح وتعلیق العلامہ احمد محمد شاکر (مطبوع) علامہ احمد شاکر نے صرف شروع کی (616) احادیث کی تحقیق فرمائی تھی، اور ایک علمی مقدمہ تحریر کیاتھا۔