اصول حدیث میں استعمال ہونے والی ضروری اصطلاحات کی تفصیل اوپر گزری، یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جامع ترمذی کے اندر استعمال ہونے والی اصطلاحات کی وضاحت الگ سے کردی جائے تاکہ قارئین کو امام ترمذی کی اس عظیم کتاب سے استفادہ میں آسانی ہو:
٭ هذا حديث حسن، هذا حديث صحيح، هذا حديث ضعيف: (یہ حدیث حسن درجے کی ہے، یہ حدیث صحیح ہے، یہ حدیث ضعیف ہے)، امام ترمذی کی اصطلاح میں حسن کا ایک خاص معنی ہے، جس کی خود آپ نے وضاحت فرمائی ہے، چنانچہ سنن کے آخر میں کتاب العلل الصغیر میں کہتے ہیں: ہم نے اس کتاب میں جو حسن حدیث ذکر کی ہے، اس سے میری مراد یہ ہے کہ اس حدیث کی سند میرے نزدیک حسن درجہ کو پہنچی ہوئی ہے۔ ہر وہ حدیث کہ جس کی سند میں کوئی ایسا راوی نہ ہو جو متہم بالکذب ہو (یعنی عام بول چال میں اس پر جھوٹ بولنے کا الزام ثابت ہو) اور وہ شاذ روایت بھی نہ ہواور وہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سندوں سے بھی آئی ہوئی ہو تو وہ ہمارے نزدیک حسن درجہ کی روایت ہے، اور صحیح اور ضعیف کی اصطلاحات میں وہ عام جمہور کے ساتھ ہیں، اور ضعیف تو معروف ہے۔
٭ هذا حديث حسن صحيح: امام ترمذی بعض جگہ کہتے ہیں: ''هذا حديث حسن صحيح'' (یہ حدیث حسن صحیح ہے)، یعنی یہ حدیث ایک سند سے حسن لذاتہ ہے یعنی اس سند کا درجہ بذات خود صحیح ہے، اور دوسرے طرق کی وجہ سے یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، دوسرا معنی یہ ہے کہ یہ حدیث سند کے اعتبار سے تو حسن ہے البتہ متن کے اعتبار سے صحیح ہے۔
٭ امام ترمذی بعض جگہ کہتے ہیں: ''هذا حديث حسن صحيح، هذا حديث حسن غريب، هذا حديث حسن غريب صحيح'' (یہ حدیث حسن صحیح ہے، یہ حدیث حسن غریب ہے، یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے)، ان اصطلاحات کے معنی یہ ہیں کہ یہ حدیث (اس سند کے اعتبارسے) حسن لذاتہ ہے اوردوسرے طرق کے موجود ہونے کے اعتبار سے صحیح لغیرہ ہے، یااس کا معنی یہ ہے کہ یہ حدیث سند کے اعتبار سے تو حسن ہے البتہ متن کے اعتبار سے صحیح ہے۔ اور یہ کہ یہ حدیث متن کے اعتبار سے حسن ہے اور سند کے اعتبار سے غریب ہے۔ نیز یہ کہ یہ حدیث متن کے اعتبار سے حسن صحیح ہے اور سند کے اعتبار سے غریب ہے۔
٭ فيه مقال أو في إسناده مقال: امام ترمذی بعض حدیثوں کے بارے میں یہ لفظ استعمال کرتے ہیں، اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ اس حدیث کی صحت یا اس کی سند کی صحت کے بارے میں محدثین نے کلام کیا ہے۔
٭ ذاهب الحديث: کسی راوی کے بارے میں ''ذاہب الحدیث '' کا معنی یہ ہوتا ہے کہ اس کے حافظہ سے یہ حدیثیں نکل جاتی ہیں یعنی وہ راوی حدیث کا حافظ نہیں ہوتا۔
٭ مقارب الحديث: امام ترمذی بعض راویوں کے بارے میں کہتے ہیں: ''مقارب الحديث'' لفظ مقارب کو ''ر'' کے فتحہ اور کسرہ دونو ں کے ساتھ پڑھا گیا ہے، فتحہ پڑھنے کی صورت میں اس کا معنی یہ ہو ا کہ دوسرا راوی اس مذکور راوی سے حافظہ میں قریب ہے، اور جس نے مقارب کو کسرہ کے ساتھ پڑھا تو اس کا معنی یہ ہوا کہ یہ راوی دوسرے راوی کے حافظہ کے قریب ہے، یعنی اس راوی کی حدیث دوسرے راوی کی حدیث کے قریب تر یا اس کی حدیث اس کی حدیث کے قریب تر ہے۔
٭ هو شيخ ليس بذاك: امام ترمذی نے حارث بن وجیہ راوی کے بارے میں یہ لفظ استعمال کیاہے اس کا معنی یہ ہے کہ یہ عمردراز اور بوڑھا راوی ہے اس کے اوپر نسیان کا غلبہ ہے اور اس قابل نہیں کہ اس کی روایت پر اعتماد کیا جائے۔ اس راوی کی حدیث قوی نہیں بلکہ ضعیف ہے۔
٭ إسناده ليس بذاك: امام ترمذی بعض راویوں کے بارے میں کہتے ہیں: ''إسناده ليس بذاك'' اس کا معنی یہ ہے کہ اس حدیث کی سند اس درجہ قوی نہیں جیسی ہونی چاہئے بلکہ اس میں کچھ ضعف پایا جاتا ہے۔
٭ هذا حديث غريب إسناداً: بعض جگہ کہتے ہیں: ''هذا حديث غريب إسناداً'' اس کا معنی یہ ہے کہ یہ حدیث سند کے اعتبار سے غریب ہے، متن کے اعتبارسے نہیں۔ مقصدیہ ہے کہ اس حدیث کا متن صحابہ کی ایک جماعت کے یہاں معروف ہے، البتہ کوئی ایک راوی کسی ایک صحابی سے روایت کرنے میں منفرد ہوگیا۔
٭ هذا حديث غريب من هذا الوجه: بعض جگہ کہتے ہیں: ''هذا حديث غريب من هذا الوجه'' یعنی یہ حدیث اس سند کے اعتبار سے غریب ہے، متن کے اعتبار سے نہیں۔ مقصدیہ ہے کہ اس حدیث کا متن تو صحابہ کی ایک جماعت کے یہاں معروف ہے، البتہ اس ایک راوی کے اس صحابی سے روایت کرنے کے سبب یہ حدیث غریب ٹھہری۔
٭ هذا حديث مرسل: بعض جگہ کہتے ہیں: '' هذا حديث مرسل '' مرسل حدیث محدثین کی اصطلاح میں ایسی حدیث کو کہتے ہیں: جس میں تابعی رسول اللہ ﷺ سے حدیث روایت کرتا ہے اور صحابی کا نام نہیں لیتا۔ لیکن امام ترمذی نے مرسل کو صرف منقطع کے معنی میں بکثرت استعمال کیا ہے تو جہاں یہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث مرسل ہے تو زیادہ تر جگہوں میں اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ یہ حدیث منقطع ہے۔ اور محدثین نے بھی لفظ مرسل کو منقطع کے معنی میں لیاہے۔
٭ هذا حديث جيد: اس کا معنی یہ ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے البتہ بعض لوگوں نے صحیح اور جید کے مابین تھوڑا سا فرق کیا ہے وہ یہ کہ جو حدیث حسن لذاتہ سے اوپر ہو لیکن صحیح کے درجہ سے کچھ کم ہو تو اس کو جید کہ دیتے ہیں۔ جہاں تک امام ترمذی کا سوال ہے تو انہوں نے جید کو صحیح کے معنی میں لیا ہے جیسا کہ: کتاب الطب کے اندر ایک حدیث کے بارے میں کہا ہے: '' هذاحديث جيد حسن'' أي: '' هذا حديث صحيح حسن''۔
٭ هذا أصح من ذلك: امام ترمذی بعض جگہ دو حدیث یا دو قول نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں: '' هذا أصح من ذلك'' یعنی یہ دونوں حدیثیں یا دونوں قول صحیح ہیں البتہ یہ بعد والی حدیث یا قول پہلے مذکور حدیث یا قول سے زیادہ صحیح ہے۔
٭ هذا أصح شيء في هذا الباب وأحسن: یعنی اس باب میں یہ حدیث زیادہ صحیح اور بہتر ہے، اس اصطلاح کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس باب میں جو حدیثیں آئی ہیں سب صحیح ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس باب میں صحیح، ضعیف جو احادیث آئی ہیں ان میں سب سے صحیح اور بہترین مذکورہ حدیث ہے۔
٭ هذا حديث فيه اضطراب: اس اصطلاح کا معنی یہ ہے کہ اس حدیث میں اضطراب ہے، یا یہ حدیث مضطرب ہے۔
اصطلاح حدیث میں مضطرب: اس حدیث کو کہتے ہیں جو ایک ہی راوی سے مختلف طرق دو یا تین یا زیادہ سے مروی ہو۔ یا دوسرے راویوں سے یا متقارب راویوں سے مروی ہو، ان سب کا آپس میں باہم سخت اختلاف ہو، اور ان کے درمیان جمع وتوفیق اورتاویل ممکن نہ ہو، اورتمام روایات قوت میں ایک دوسرے کے برابرہوں، کسی کودوسرے پر کسی صورت میں ترجیح ممکن نہ ہو، اگرکوئی طریقہ روایت قوت میں زیادہ ہوتو پھر اس حدیث کو مضطرب نہیں کہیں گے، راجح روایت پر عمل کریں گے، اسنادی قوت کے علاوہ ترجیح کے اوربھی اسباب وعوامل ہوتے ہیں ان کے لحاظ سے بھی روایت کوترجیح دی جاسکتی ہوتواس پر عمل کیاجائے گا۔ حدیث میں اضطراب اس کے ضعف کی ایک علامت اور دلیل ہے۔
٭هذا حديث غير محفوظ: (یہ حدیث محفوظ نہیں ہے)، اس اصطلاح کا مطلب یہ ہے کہ یہ حدیث شاذ ہے۔ شاذ (غیر محفوظ) حدیث بھی ضعیف احادیث کی ایک قسم ہے، شاذ ایسے ثقہ راوی کی روایت کو کہتے ہیں جس نے اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کے خلاف حدیث روایت کی ہویا ثقہ نے ثقات کی ایک جماعت کے برخلاف روایت کی ہو، توزیادہ ثقہ راوی یا کئی ثقات کے مقابلے میں کم ثقہ کی روایت کوشاذ یا غیر محفوظ کہتے ہیں، اور اس سے زیادہ ثقہ راوی یا ثقات کی روایت کو ''محفوظ''کہاجاتاہے، ظاہربات ہے کہ تعارض اور اختلاف کے وقت ''محفوظ'' روایت کو ترجیح دی جائے گی۔
٭ الكراهة أو الكراهية: بعض جگہ شریعت کے احکام کی وضاحت میں (کراہۃ اور کراھیۃ) کالفظ استعمال کرتے ہیں، واضح رہے کہ امام ترمذی اس لفظ کا معنی تنزیہ یا ترک اولی کے نہیں لیتے، جیسا کہ عام فقہاء کی اصطلاح میں کراہت اور کراہیت کا لفظ استعمال ہوتا ہے، بلکہ اس لفظ سے تنزیہ اور ترک اولی اور حرمت کے معنی میں استعمال کرتے ہیں، اور سلف کے یہاں بھی یہ لفظ حرام کے معنی میں بکثرت استعمال ہواہے۔
چنانچہ امام عینی عمدۃ القاری میں فرماتے ہیں: متقدمین کراہت کا لفظ بول کر اس سے کراہتِ تحریمی مراد لیتے ہیں (3/387)، مزید تفصیل کے لیے إعلام الموقعین لابن القیم، اور نواب صدیق حسن کی الدین الخالص کا مطالعہ مفید ہوگا، نیز مقدمہ تحفۃ الأحوذی میں بھی اس کی تفصیل موجود ہے (324-328)۔
٭أهل الرأي: امام ترمذی نے بعض جگہ یہ لفظ استعمال کیا ہے اس سے اُن کی مراد وہ لوگ ہیں جو حدیث پر رائے اور قیاس کو ترجیح دیتے تھے، چونکہ عراق اہل الرائے فقہاء کا گڑھ تھا اس لیے اس اصطلاح سے مراد وہاں کے علماء کا طریقہ تفقہ بھی ہے، اس سلسلے میں سب سے زیادہ شہرت امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کو ہے جو اہل الرائے سے مشہور ہیں، ان کے مقابلے میں اہل حدیث کا مذہب ہے جن کا گڑھ حجاز (یعنی مکہ اور مدینہ) تھا، یہ دونوں گروہ اہل علم کے یہاں شروع ہی سے متعارف تھے۔
امام ترمذی اہل الکوفہ کی اصطلاح بھی استعمال کرتے ہیں، جس سے مراد کوفہ کے علماء وفقہاء ہوتے ہیں جیسے کہ سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ اور ابوحنیفہ وغیرہ، اور جب ''بعض اہل کوفہ'' کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے خاص طور پر امام ابوحنیفہ ہی نہیں مراد ہوتے، بلکہ وہ کوفی عالم مقصود ہوتا ہے جس کے قول یا رائے کا ذکر یا اس پر کلام مقصود ہو، چنانچہ کتاب الطہارۃ میں باب ماجاء أنہ یبدأ بمؤخر الرأس، رأس کے تحت ربیع بنت معوذ کی حدیث ذکرکرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے اپنے سر کا مسح دو بار کیا، اور پہلے اپنے سر کے پچھلے حصے سے مسح شروع کیا پھرآگے کا مسح کیا، اس پر امام ترمذی کہتے ہیں: وقد ذهب أهل الكوفة إلى هذا الحديث منهم وكيع بن الجراح یعنی بعض اہل کوفہ کا مذہب اس حدیث پر ہے، ان میں سے وکیع بن جراح ہیں، ترمذی نے یہاں پر بعض اہل کوفہ کا لفظ استعمال کیا، اور یقینی طور پر یہاں اس سے مراد امام ابوحنیفہ نہیں ہیں، اس لیے بعض شراحِ حدیث جیسے سراج احمد ہندی اور محدث عبدالحق کا یہ کہنا کہ اہل کوفہ سے ترمذی کی مرادامام ابوحنیفہ سے ہے، لیکن تعصب کی وجہ سے نام کی صراحت نہیں کرتے، یہ دونوں باتیں صحیح نہیں ہیں، نہ تو اہل کوفہ سے مراد مخصوص طور پر ابوحنیفہ ہیں اور نہ ہی ان کا نام نہ لینا کسی تعصب کی بنا پر تھا، جیسا کہ سابقہ مثال میں خود امام ترمذی نے اہل کوفہ کا لفظ استعمال کرکے ان میں سے امام وکیع کا ذکرکیا، اس مسئلہ کو علامہ مبارکپوری نے خوب اچھی طرح واضح کیا ہے۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی کہتے ہیں کہ ترمذی کو ائمہ اہل قیاس واجتہاد سے تعصب تھا، مبارکپوری کہتے ہیں: جیسے اہل کوفہ سے ترمذی کے بارے میں یہ کہنا کہ ان کی مراد'' ابوحنیفہ'' ہے، غلط ہے، ایسے ہی یہ بھی غلط اور باطل ہے کہ ترمذی کو ائمہ اہل قیاس واجتہاد سے تعصب ہے کیونکہ امام شافعی، مالک، اور احمد بن حنبل وغیرہ ائمہ مجتہدین کے کلام کا تذکرہ اُن کے اپنے نام کے ساتھ موجود ہے، اور اگر اس سے یہ مراد لیاجائے کہ ائمہ اہل قیاس اور اجتہاد سے امام ابوحنیفہ اوراصحاب ابوحنیفہ مراد ہیں تو یہ بھی باطل ہے، اس لیے کہ تعصب کی بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے، رہ گیا ایسا ظن وگمان کرنا کہ امام ابوحنیفہ کے نام کی صراحت نہ کرنے کی وجہ تعصب ہے تو یہ بدگمانی کی بات ہے، اور بعض بدگمانی گناہ کے قبیل سے ہوتی ہے، عبدالحق محدث دہلوی کا یہ کہنا کہ امام ابوحنیفہ کا نام ترمذی نے صراحت سے نہیں لیا ہے، تو ایسا کہنا اس لیے صحیح نہیں ہے کہ امام ترمذی نے اپنی جامع کے آخر میں محمود بن غیلان سے یہ روایت کی ہے کہ ان سے ابویحیی حمانی نے بیان کیا کہ انہوں نے ابوحنیفہ کو یہ کہتے سنا: میں نے جابر جعفی سے زیادہ جھوٹا اور عطاء بن ابی رباح سے زیادہ فاضل کسی کو نہیں دیکھا، ترمذی کا یہ قول ہندوستان کے سنن الترمذی کی طباعتوں میں نہیں ہے، لیکن مصری نسخے میں یہ قول موجود ہے، اور حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں سنن کے حوالے سے یہ قول ذکر کیا ہے، اس لیے محدث عبدالحق کا یہ قول بالکل باطل ہے کہ امام ترمذی نے امام ابوحنیفہ کا نام صراحت سے نہیں ذکرکیا ہے۔
اس کے بعد مبارکپوری کہتے ہیں: '' أهل الكوفة '' سے امام ترمذی کی مراد کوفہ کے اہل علم حضرات ہیں، جیسے امام ابوحنیفہ، سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ وغیرہ، اور بعض اہل کوفہ سے مراد بعض علماء کوفہ ہیں، ان دونوں لفظوں سے مراد صرف امام ابوحنیفہ نہیںہیں، امام ترمذی اس لفظ کے استعمال میں تنہا نہیں ہیں بلکہ کئی اہل علم یہ الفاظ استعمال کرتے ہیں، اس کے بعد امام حازمی کی کتاب الاعتبار فی الناسخ والمنسوخ سے کئی عبارتیں نقل کیں، جن میں صریح طور پر اہل کوفہ کے لفظ کے استعمال کے ساتھ امام ابوحنیفہ کا تذکرہ موجودہے، ایسے ہی کوفی علماء کا ذکرآتا ہے تو اہل کوفہ اور کوفی دونوں ہم معنی لفظ ہیں، اور یہ لفظ عینی نے بھی استعمال کیا ہے، اور ان کی مراد کوفی سے وہی ہے جو امام ترمذی اہل کوفہ کہہ کر کہنا چاہتے ہیں۔
٭ أصحابنا: فقہی مذاہب بیان کرتے وقت امام ترمذی ''اصحابنا'' کا لفظ بکثرت استعمال کرتے ہیں، جس سے ان کی مراد ''اصحاب حدیث''، اور'' اہل الحدیث'' ہوتے ہیں جن میں مالک، شافعی، احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ، سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ وغیرہ سبھی ائمہ شامل ہیں، حافظ ابن حجر بھی اس طرح کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، مثلا کہتے ہیں: وبه قال أحمد وإسحاق وغيرهما من أهل الحديث یعنی اہل حدیث علماء میں سے احمد اور اسحاق بن راہویہ وغیرہ کا یہ مذہب ہے، ترمذی ایک سے زائد بار ''اصحابنااہل الحدیث'' کا لفظ استعمال کرکے مثال میں شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ وغیرہم کا نام ذکر کرتے ہیں، ابوالطیب سندھی اور طیبی وغیرہ نے بھی ''اصحابنا'' کا معنی ''اہل الحدیث'' بتایا ہے، بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ اس سے مراد حنابلہ یا شافعیہ ہیں، صحیح نہیں ہے، یہ بات بھی واضح رہے کہ کتب ستہ کے مؤلفین میں سے کوئی بھی امام کسی خاص فقہی مسلک کا پابند نہ تھا، بلکہ سب کے سب محقق عالم اور متبع کتاب وسنت تھے۔
٭ فقہاء: اس سے ترمذی کی مراد فقہائے محدثین ہوتے ہیں، جو اہل الحدیث ہیں، جن میں مالک، شافعی، احمدبن حنبل، اسحاق بن راہویہ، سفیان ثوری، سفیان عیینہ وغیرہ سبھی شامل ہیں، ترمذی نے'' کتاب العلل'' کے اوائل میں سنن میں موجود فقہاء تک اپنی سند بیان کی ہے، جن میں سفیان ثوری، مالک بن انس، ابن مبارک، شافعی، احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ کا ذکر فرمایاہے۔ اس قول سے بھی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امام ترمذی ''فقہاء'' سے ''فقہائے محدثین'' مراد لیتے ہیں، اس سے ان کی مراد ''فقہاء اہل الرائے'' نہیں ہوتے ہیں جیسا کہ بعض علمائے حنفیہ نے سمجھ رکھا ہے۔