صحاح ستہ میں سنن ترمذی کا مقام ومرتبہ:
صحاح ستہ میں جامع ترمذی کی اہمیت وافادیت کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں ہے، لیکن صحیحین کے بعد سنن اربعہ میں اس کا کیا مرتبہ ہے، اس کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ یہ صحیحین کے بعد تیسرے نمبر کی کتاب ہے یا چوتھے نمبر پر ہے۔
بعض اہل علم کے نزدیک ترمذی کا درجہ صحیحین کے بعد ہے، یعنی سنن اربعہ میں اس کا مقام پہلا ہے۔
حاجی خلیفہ (ملا کاتب چلپی) (1017-1067ھ)اورعلا مہ عبدالرحمن مبارکپوری کی رائے یہی ہے۔
علماء کی اکثریت کے نزدیک سنن ترمذی کا مقام ابوداود کے بعدہے۔
حاجی خلیفہ کشف الظنون میں جامع ترمذی کے بارے میں کہتے ہیں: یہ کتاب علم حدیث کی صحاح ستہ کتابوں میں تیسرا مقام رکھتی ہے۔ اور اس کے مؤلف کی طرف منسوب ہوکر جامع ترمذی کے نام سے مشہور و معروف ہے۔
امام ذہبی کہتے: جامع ترمذی کا مرتبہ سنن ابو داود اور سنن نسائی کے بعد ہے اس لیے کہ اس میں امام ترمذی نے محمد بن سعید مصلوب اور کلبی جیسے راویوں کی روایتیں نقل کی ہیں۔ (تدریب الراوی للسیوطی)۔
تقریب التہذیب، تہذیب التہذیب، خلاصہ للخزرجی وغیرہ میں جس ترتیب سے رواۃ حدیث کے رموز استعمال کئے گئے ہیں اس سے سمجھ میں آتا ہے کہ ان مولفین کے نزدیک جامع ترمذی کا رتبہ سنن ابو داود کے بعد اور سنن نسائی سے پہلے ہے۔ ان کتابوں کے مصنفین اس ترتیب سے لکھتے ہیں: (د: سنن ابو داود، ت: جامع ترمذی، ن: سنن نسائی)۔
حافظ سیوطی نے جامع صغیر میں یوں لکھا ہے: (ب: بخاری، م: مسلم، ق: متفق علیہ، د: سنن ابو داود، ت: جامع ترمذی، ن: سنن نسائی)۔
علامہ عبدالروؤف مناوی نے فیض القدیر میں لکھا ہے: جامع ترمذی کا رتبہ سنن ابو داود اور سنن نسائی کے درمیان کا ہے۔
علامہ عبدالسلام محدث مبارکپوری (1289-1342ھ) سیرۃ البخاری میں امام ترمذی کا اپنی سنن کے بارے میں یہ قول کہ میں نے اس کتاب کو تصنیف کے بعد حجاز عراق اورخراسان کے علماء پر پیش کیا تو انہوں نے اپنی رضامندی کا اظہار کیا، یہ قول نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: لیکن اس بات کا لحاظ ضروری ہے کہ امام ترمذی احادیث کی تحسین میں متساہل ہیں، یہی وجہ ہے کہ محدثین فرماتے ہیں کہ ترمذی کی تحسین سے دھوکہ نہیں کھاناچاہئے، پھر کہتے ہیں: کتب ستہ میں ترمذی کا مرتبہ صحیحین کے بعد ہے، جس پر محدثین کا اتفاق ہے، اور ایک فارسی شعر لکھتے ہیں کہ ترمذی کا شمار سربرآوردہ محدثین میں ہے، لیکن سنن کا درجہ صحیحین کے بعد ہے، اور یہ مشکل بات کہ سنن دارمی، سنن ابی داود، سنن نسائی اور جامع ترمذی میں سے کسی ایک کو دوسرے پر فضیلت دی جائے۔ (2/716)
علامہ عبد الرحمن محدث مبارکپوری (1283-1353ھ) تحفۃ الاحوذی میں کہتے ہیں: امام ذہبی نے جامع ترمذی کا رتبہ سنن ابو داود اور سنن نسائی کے بعد کہا ہے تو ان کے اس قول کے سلسلہ میں مجھے اعتراض ہے۔ اور ظاہر بات وہی ہے جو صاحب کشف الظنون نے لکھی ہے کہ اس کا درجہ تیسرا ہے۔ اور امام ترمذی نے مصلوب اور کلبی جیسے راویوں کی روایتیں جو نقل کی ہیں تو ساتھ ساتھ ان کے ضعف کو بھی بیان کردیا ہے۔ پس انہوں نے ان کی روایتیں بطور شاہد ومتابع کے روایت کی ہیں، جیسا کہ حافظ حازمی نے اپنی کتاب شروط الائمہ میں لکھا ہے:
حقیقت یہ ہے کہ امام ترمذی کی شرط امام ابو داود کی شرط کے مقابلہ میں زیادہ بلیغ ہے۔ کیونکہ جب حدیث ضعیف ہوتی ہے یا طبقہ رابعہ کے راویوں کی روایت ہوتی ہے تو امام ترمذی اس حدیث میں پائے جارہے ضعف و علت کو بیان کردیتے ہیں اور اس پر متنبہ کردیتے ہیں پس ان کے نزدیک وہ حدیث بطور شاہد و متابع کے ہوتی ہے۔ اور ان کا اعتماد ان احادیث پر ہوتاہے جو جماعت محدثین کے نزدیک صحیح و ثابت ہوں۔
ان سب کے باوجود جامع ترمذی کا رتبہ باعتبار فوائد و منفعت سنن ابو داود اور سنن نسائی سے بڑھ کر ہے۔ اور ظاہری بات وہی ہے جو صاحب کشف الظنون نے لکھی ہے کہ ترمذی کا درجہ تیسرا ہے۔