سنن ترمذی کی شرط:
٭حافظ ابو الفضل محمد بن طاہر مقدسی (ت: 507ھ) اپنی کتاب شروط الائمہ الستہ میں لکھتے ہیں:
ائمہ حدیث (بخاری، مسلم، ابوداود، نسائی، ترمذی اور ابن ماجہ) میں سے کسی سے یہ منقول نہیں ہے کہ میں اپنی کتاب میں یہ حدیثیں فلاں اور فلاں شرط کے تحت ذکر کروں گا۔ لیکن جب ان کی تصانیف کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو اس سے مندرجہ ذیل نتیجہ نکلتا ہے اور ان شرائط کا علم ہوتا ہے جو انہوں نے اختیار کیا ہے وہ یہ ہیں:
امام بخاری اورامام مسلم کی یہ شرط ہے کہ وہ اپنی کتابوں میں صرف وہی احادیث ذکر کریں گے جن کی سند میں ایسے راوی ہوں جن کا سلسلۂ سند کسی مشہور صحابی تک پہنچتا ہو اور ان کی ثقاہت وعدالت پر جملہ محدثین اصحاب جرح و تعدیل کا اجماع و اتفاق ہو۔
امام ابو داود اور امام نسائی کی کتابوں میں مروی احادیث کی تین قسمیں ہیں:
1- وہ صحیح احادیث جو صحیحین میں مروی ہیں۔
2- دوسری ایسی احادیث جو شیخین (بخاری ومسلم) کی شرط پر ہیں۔
3- تیسری ایسی احادیث جن کی ان دونوں نے تخریج کی ہے لیکن جن کے بارے میں قطعیت کے ساتھ اس بات کی صراحت نہیں ہے کہ یہ صحیح ہیں، البتہ انہوں نے ان احادیث کے بارے میں اہل علم و معرفت نے جو علتیں ذکر کی ہیں اُن کو بیان کردیا ہے۔ ایسا انہوں نے محض اس لئے کیا ہے کہ کچھ لوگوں نے اِن احادیث کی روایت کی ہے اور ان سے استدلال کیا ہے۔ چنانچہ محض اسی بنا پر اِن دونوں اماموں نے ایسی احادیث کو اپنی کتابوں میں جگہ دی ہے، البتہ اس میں جو کمزوری اورضعف پایا جاتا تھا اس کو واضح کردیا تاکہ شبہ ختم ہوجائے۔ اس کے علاوہ اور کوئی چارئہ کار نہ تھا، کیونکہ ان کے نزدیک یہ روایات لوگوں کے اقوال وآراء کے مقابلے میں زیادہ قوی تھیں۔
رہے امام ترمذی تو ان کی جامع میں چار قسم کی احادیث ملتی ہیں:
1- پہلی قسم وہ ہے جو قطعی طور پر صحیح ہے جو صحیحین کے موافق ہے۔
2- دوسری قسم وہ ہے جو امام ابو داود اور امام نسائی کی شرط پر ہے۔
3- تیسری قسم ان احادیث کی ہے جو مذکورہ اقسام کے خلاف ہیں اور جن کی علت انہوں نے بیان کردی ہے۔
4- اور چوتھی قسم ان احادیث کی ہے جن کے بارے میں امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ وہ احادیث ہیں جن پر فقہاء کا عمل رہا ہے۔ اور یہ کہ میں نے اس کتاب میں وہی روایات نقل کی ہیں جو معمول بہ تھیں (یعنی کسی عالم اور فقیہ نے اس پر عمل کیا تھا) یہ بڑی وسیع شرط ہے جس کی بنا پر بہت ساری معمول بہ احادیث آجاتی ہیں۔ خواہ وہ سنداً صحیح ہوں یا غیر صحیح، اس کا ذکر کرکے خود کچھ کہنے اوراُن پرحکم لگانے سے گریز کیا ہے۔ نیز اپنی اس کتاب میں ایک باب کے تحت آنے والی مختلف صحابہ سے مروی احادیث کی طرف اشارہ کردیا ہے، چنانچہ کہتے ہیں کہ اس باب میں فلاں فلاں صحابی سے احادیث مروی ہیں (شروط الأئمہ الستہ)۔
٭ابونصرعبدالرحیم بن عبدالخالق بغدادی (ت: 574ھ) کہتے ہیں: جامع ترمذی کی احادیث کی چار قسمیں ہیں:
(1) پہلی قسم وہ احادیث جو قطعی طور پر صحیح ہیں۔
(2) دوسری قسم جوابوداود اور نسائی کی شرط پرہوں۔
(3) اور تیسری قسم امام ترمذی کی سابقہ شروط کی ضد اور مخالف احادیث ہیں، ترمذی نے جن کے ضعف کی علت بیان کی ہے۔
(4) اور چوتھی وہ قسم جن کے بارے میں امام ترمذی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی اس کتاب میں صرف وہی حدیثیں روایت کی ہیں جن پر بعض فقہاء نے عمل کیا ہے، صرف دوحدیثیں ایسی ہیں جو اس قاعدے سے الگ ہیں:
ایک حدیث: فإن شرب في الرابعة فاقتلوه (کتاب الحدود: 1444) (اگر شرابی چوتھی بار شراب پئے تو اسے قتل کردو)۔
دوسری حدیث: جمع بين الظهر والعصر بالمدينة من غير خوف ولا مطر (کتاب الصلاۃ: 187) (نبی اکرم ﷺ نے مدینہ میں بغیر کسی خوف یا سفر کے ظہر اور عصر جمع کرکے ایک ساتھ پڑھی)۔ (السیر 13/274-275)۔
حافظ ذہبی ابوناصر بغدادی کے اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میں کہتا ہوں کہ امام ترمذی کی جامع سے آپ کی امامت، حفظ اور تفقہ کا فیصلہ ہوجاتا ہے، لیکن آپ حدیث کے قبول کرنے (یعنی تصحیح کرنے) میں سہل پسند ہیں متشدد نہیں ہیں، اور حدیث کی تضعیف کرنے میں ڈھیلے ڈھالے ہیں۔
امام ترمذی کے حدیث کی تصحیح میں تساہل پر حافظ ذہبی (673-748ھ) نے میز ان الاعتدال میں ایک سے زائد بار تنقید فرمائی ہے، متکلم فیہ راوی کثیر بن عبداللہ بن عمر بن عوف مزنی کے ترجمہ میں ان پر علماء کی جرح نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں: ترمذی نے ان سے حدیث: الصلح جائز بين المسلمينروایت کی ہے، اور اس کی تصحیح بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ علماء ترمذی کی تصحیح پر اعتماد نہیں کرتے (میزان الاعتدال 3/407)۔
یحیی بن یمان کے ترجمہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث: إن النبي ﷺ دخل قبرا ليلا فأسرج له سراجذکر کرکے کہتے ہیں کہ ترمذی نے اس حدیث کی تحسین کی ہے، جب کہ اس میں تین راوی ضعیف ہیں، اس لیے ترمذی کی تحسین نہیں مانی جائے گی، تحقیق کے وقت ترمذی کی اکثر تحسینات ضعیف ہیں (میزان الاعتدال4/416)۔
محمد بن الحسن بن ابی یزید الہمد انی الکوفی کے ترجمے میں ابوسعید رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث: يقول الله: من شغله قرائة القرآن عن دعائي ومسألتي أعطيته أفضل ثواب الشاكرين'' ذکرکر کے کہتے ہیں: ترمذی نے اس کی تحسین کی ہے، لیکن اچھا نہیں کیا ہے (میزان الاعتدال3/514)
٭حافظ ابوبکر محمدبن موسیٰ حازمی (548-584ھ) اپنی کتاب شروط الائمہ میں لکھتے ہیں:
ائمہ حدیث میں سے جن لوگوں نے صحیح احادیث کی تخریج کی ہے ان کا مذہب اور طریقہ یہ ہے:
وہ اپنی کتابوں میں صرف وہی احادیث ذکر کریں گے جن کی سند میں ایسے راوی ہوں جو خود ثقہ و عادل ہوں، اسی طریقہ سے جن مشائخ سے انہوں نے سنا ہے، اورجن لوگوں نے ان سے سنا ہے سب ثقہ و عادل ہوں۔ اور ان میں سے ایک دوسرے کی تحدیث صحیح طور پر ثابت ہو تو ایسی احادیث کی تخریج لازم ہے۔
اور بعض روایتیں اس لائق نہیں ہیں کہ ان کی تخریج کی جائے الا یہ کہ بطور شاہداور متابع کے ان کا ذکر کیا جائے۔
فرماتے ہیں: یہ ایسا باب ہے جس میں غموض ہے اور اس طریق کی وضاحت کے لئے راویوں کے طبقات اور ان کے مراتب کی معرفت اور اس کا علم ہونا چاہئے، جس کو ہم ایک مثال سے واضح کردینا چاہتے ہیں۔ مثال کے طور پر تلامذئہ زہری کے پانچ طبقات ہیں، اور ہر طبقہ دوسرے طبقہ سے مختلف اور ممتاز ہے:
پہلا طبقہ انتہا درجہ کی صحت کا حامل ہے جیسے مالک، سفیان بن عیینہ، عبید اللہ بن عمر، یونس اورعقیل جیسے لوگ، یہ طبقہ رواۃ امام بخاری کا مقصود ومطلوب ہے۔
دوسرا طبقہ پہلے طبقہ کی طرح ہی انتہا درجہ کی صحت کا حامل ہے البتہ یہ پہلے سے کچھ کم درجہ کے ہیں، اور ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ پہلے طبقہ کے رواۃ امام زہری کی صحبت میں دوسرے طبقہ کے مقابلے میں زیادہ رہے، نیز اس طبقہ کے لوگ (حدیث کی روایت وحفظ کے باب میں) اتقان اور پختگی میں پہلے طبقہ کے لوگوں سے کچھ کم درجہ کے ہیں، یہ لوگ امام مسلم کی شرط کے مطابق ہیں، جیسے اوزاعی، لیث بن سعد، نعمان بن راشد، عبد الرحمٰن بن خالد بن مسافراور ابن ابی ذئب جیسے رواۃ حدیث۔
تیسرا طبقہ پہلے طبقہ رواۃ کی طرح ہی امام زہری کی صحبت میں رہاہے۔ البتہ یہ طبقہ سابقہ رواۃ باعتبار صحت کچھ کم درجہ کا ہے، اور ان دونوں طبقوں میں فرق یہ ہے کہ اس طبقہ کے لوگ امام زہری کی صحبت میں پہلے طبقہ کی طرح رہے، لیکن یہ لوگ حفظ و اتقان میں پہلے طبقہ کے لوگوں کی طرح نہیں بلکہ ان سے بہت کم ہیں۔ ان کی روایتوں کے رد و قبول کے سلسلہ میں محدثین کا اختلاف رہا ہے۔ اور یہ طبقہ رواۃ امام ابو داود اور امام نسائی کی شرط کے مطابق ہیں۔ جیسے سفیان بن حسین، جعفر بن برقان اور اسحاق بن یحییٰ کلبی۔
چوتھا طبقہ جرح و تعدیل کے معاملہ میں تیسرے طبقہ رواۃ کی طرح ہی ہیں، لیکن ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ اس طبقہ کے لوگ امام زہری کی صحبت میں تیسرے طبقہ کی طرح نہیں رہے ہیں، اس طبقہ کے لوگ چونکہ امام زہری کی صحبت میں کم رہے ہیں اس لئے وہ روایت حدیث میں متفرد ہیں، اور یہ لوگ امام ترمذی کی شرط کے مطابق ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ امام ترمذی کی شرط امام ابو داود کی شرط کے مقابلہ میں زیادہ قوی ہے، کیونکہ جب حدیث ضعیف ہوتی ہے یا طبقہ رابعہ کے راویوں کی روایت ہوتی ہے تو امام ترمذی اس حدیث میں پائے جانے والے ضعف و علت کو بیان کردیتے اور اس پر متنبہ کردیتے ہیں پس ان کے نزدیک وہ حدیث بطور شاہد و متابع کے ہوتی ہے۔ اور ان کا اعتماد ان احادیث پر ہوتاہے جو جماعت محدثین کے نزدیک صحیح و ثابت ہوں، اور اس طبقہ کے لوگ زمعہ بن صالح، معاویہ بن یحییٰ صدفی اور مثنیٰ بن صباح جیسے رواۃ ہیں۔
پانچویں طبقہ میں ضعیف اور مجہول اور ایسے رواۃ ہیں کہ جن کی روایتوں کی تخریج جائز ہی نہیں البتہ امام ابوداود کے نزدیک بطوراعتبار اور استشہاد اس کو ذکر کیا جا سکتا ہے، جبکہ امام بخاری و مسلم کے نزدیک ایسے رواۃ سے روایت جائز نہیں ہے، اس طبقہ میں بحر بن کنیز السقاء، حکم بن عبد اللہ الایلی، عبد القدوس بن حبیب، محمد بن سعید مصلوب جیسے رواۃ ہیں۔
امام بخاری نے ضرورت کے تحت بسا اوقات طبقہ ثانیہ کے مشہور راویوں کی احادیث کی تخریج کی ہے۔ اسی طرح امام مسلم نے ضرورت کے تحت بسا اوقات طبقہ ثالثہ کے مشہور راویوں کی احادیث کی تخریج کی ہے۔ اور امام ابوداود نے ضرورت کے تحت بسا اوقات طبقہ رابعہ کے مشہور راویوں کی احادیث کی تخریج کی ہے۔
٭حافظ ابن رجب (726-795ھ) شرح العلل میں ترمذی کی احادیث پر یوں تبصرہ کرتے ہیں: ترمذی نے اپنی کتاب میں صحیح اور حسن جو صحیح سے نیچے درجے کی حدیث ہے، اور اس میں بعض ضعف ہوتا ہے اور غریب حدیث تخریج کی ہے، ترمذی نے جن غریب احادیث کا ذکر کیا ہے، ان میں بعض بڑی ضعیف احادیث ہیں بالخصوص کتاب الفضائل میں لیکن وہ ان احادیث کی اکثر علت بیان کردیتے ہیں، اور خاموش نہیں رہتے، میرے علم میں ترمذی نے کسی ایسی حدیث کی علی الاستقلال منفرد سندسے تخریج نہیں کی ہے جس کا راوی متفقہ طورپر متہم بالکذب ہو، ہاں وہ کبھی کئی طرق سے روایت کی جانے والی حدیث کی تخریج کرتے ہیں یا جس کی سند میں اختلاف ہوتا ہے اور بعض طرق میں متہم راوی ہوتا ہے، اور اسی بناء پر محمد بن سعید مصلوب اور محمدبن سائب کلبی کی احادیث کی تخریج کی ہے، اور کبھی کمزور حافظے والے یا جس کی احادیث میں اوہام کا غلبہ ہوتاہے سے روایت کرتے ہیں، اور اکثر اس کی وضاحت کردیتے ہیں اور خاموش نہیں رہتے، نیز ثقہ اور حافظے کے مضبوط رواۃ اور کم وہم والے اور زیادہ وہم والے رواۃ سے روایت کرتے ہیں، اور جس راوی پر وہم غالب ہوتا ہے، اُن کی احادیث کو نادر طور پر روایت کرتے ہیں اور اس کی وضاحت بھی کردیتے ہیں، خاموش نہیں رہتے (میزان الاعتدال 1/395)۔
امام ترمذی کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے ترجمۃ الباب کا تذکرہ کرتے ہیں اور اس باب کے تحت کسی مشہور صحابی سے مروی صحیح حدیث ذکر کرتے ہیں جس کی تخریج کتب صحاح میں ہو چکی ہے۔ لیکن باب میں مذکور حکم کسی دوسرے صحابی سے مروی دوسری غیر مذکور حدیث سے نکلتا ہے لیکن اس کی تخریج انہوں نے نہیں کی ہے تو اس کی طرف اشارہ کردیتے ہیں اگرچہ وہ سند کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن اس کا حکم صحیح ہو۔ پھر اس کے بعد کہتے ہیں کہ اس باب میں فلاں فلاں صحابی سے احادیث مروی ہیں، اور پوری ایک جماعت کو ذکر کرجاتے ہیں جن میں وہ صحابی بھی شامل ہوتے ہیں جن کی حدیث سے باب کا حکم نکلتا ہے، اور ایسا چند ابواب میں ہی ہوا ہے۔