شاہ ولی اللہ دہلوی (ت: 1176ھ) حجۃ اللہ البالغہ میں لکھتے ہیں: میرے نزدیک وسعت علم اور افادیت کے اعتبار سے مشہور چار ائمہ ہیں جو سب کے سب ہم عصر ہیں ایک امام بخاری، دوسرے امام مسلم، تیسرے امام ابو داود اور چوتھے امام ترمذی۔
جہاں تک امام بخاری کا تعلق ہے تو آپ نے جامع صحیح اس غرض سے لکھی کہ صحیح متصل احادیث کو چھانٹ چھانٹ کر کے الگ ایک جگہ اکٹھا کردیا جائے۔ اور ان سے فقہ، سیرت اور تفسیر کے احکام و مسائل مستنبط کئے جائیں چنانچہ انہوں نے اپنی تصنیف جامع صحیح کے اندر جو شرط رکھی تھی اس کا پورا پورا حق ادا کیا۔ اور یہی اس کا امتیازی وصف تھا جس کے سبب اس کو امت کے درمیان شرف قبولیت حاصل ہوا اور وہ مقام ملا جو کسی دوسری کتاب کو نہ مل سکا۔
رہے امام مسلم تو جامع صحیح کی تصنیف سے ان کا مقصد یہ تھا کہ محدثین کے درمیان موجود صحیح متصل مرفوع احادیث جن سے احکام مستنبط ہوتے ہیں ان کو چھانٹ چھانٹ کر الگ کر کے ایک جگہ اکٹھا کردیا جائے تاکہ وہ لوگوں کے ذہن و دماغ کے قریب اور نظر کے سامنے رہیں۔ اور ان سے احکام و مسائل مستنبط کرنا آسان ہوچنانچہ انہوں نے اپنی تصنیف جامع صحیح کو اسی ترتیب سے مرتب کیا اور ہر حدیث کے جتنے طرق واسانید وارد تھے ان کو ایک جگہ جمع کردیا تاکہ متون کا جو اختلاف ہے وہ واضح ہو جائے۔ چنانچہ آپ نے ہر حدیث کے جتنے طرق واسانید وارد تھے ان کو صراحت کے ساتھ بیان کیا۔
امام ابو داود کا مقصدسنن کی تالیف سے یہ تھا کہ جن احادیث سے فقہاء نے استدلال کیا ہے ان کو اکٹھا کردیا جائے۔ فقہائے امصار نے جن احادیث پر احکام کی بنیاد رکھی اور ان کے مابین احکام کا مدار جن احادیث پر تھا اس کو سامنے رکھ کر سنن کی تالیف کی۔ اور اس میں صحیح و حسن احادیث جمع کی نیز وہ احادیث جو قابل عمل تھیں ان کو بیان کیا جن میں کسی قدرضعف پایا جاتا تھا۔ امام ابو داود فرماتے ہیں: میں نے اپنی کتاب سنن میں کوئی ایسی حدیث ذکر نہیں کی ہے جس کو متفقہ طور پر بالاجماع محدثین اور اہل علم نے متروک قرار دیا ہو، حدیث کے اندر جو ضعف تھا اس کو صراحت کے ساتھ بیان کردیا اور جو اس میں علت پائی جاتی تھی اس کو بڑی باریک بینی کے ساتھ واضح کردیا ہے۔ اور ہراُس حدیث کوباب کے تحت ذکر کیا ہے جس سے کسی عالم نے مسئلہ استنباط کیا، اور مذہب اختیار کرنے والوں نے اُسے اپنا مذہب بنایا ہے۔
جہاں تک امام ترمذی کا تعلق ہے تو آپ نے امام بخاری اور مسلم کے طریقے اور منہج کو واضح کیا، اور کسی قسم کا کوئی ابہام اپنی کتاب میں نہ رہنے دیا۔ امام ابو داود نے اپنی سنن کے اندر یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ فقہاء نے جن روایتوں کو اپنا مذہب بنایا ہے اس کو جمع کردیا ہے۔ اپنی جامع صحیح کے اندر ان تینوں اماموں (بخاری و مسلم اور ابوداود) کے طریقوں کومستحسن قرار دیتے ہوئے یکساں طور پر اپنایا ہے۔ ساتھ ساتھ صحابہ، تابعین اورفقہائے امصار کے مذاہب کو بیان کیا ہے۔ پس ان سب کی جامع ایک ایسی کتاب تیار کی جس میں طرق احادیث کو اختصارسے ذکر کیا۔ ایک حدیث باب کے تحت درج کرکے اس کے ضمن میں وارد دیگرصحابہ سے مروی احادیث کی طرف اشارہ کردیا۔ اور اس بات کی بھی صراحت کردی کہ یہ حدیث درجہ کے اعتبار سے صحیح ہے یا حسن یا ضعیف یا منکر، اور حدیث کے ضعیف اور معلول ہونے کے اسباب کو بھی بیان کردیا، تاکہ علم حدیث حاصل کرنے والا علی وجہ البصیرۃ علم حدیث حاصل کرسکے۔ اور یہ جان سکے کہ یہ حدیث استدلال کے قابل ہے یا نہیں۔ اور یہ بھی واضح کردیا کہ یہ روایت مستفیض ومشہور ہے یا غریب ومتفرد، صحابہ، تابعین اور فقہائے امصار کے مذاہب کو بھی بیان کیا، اور جہاں ضرورت محسوس ہوئی رواۃ کے نام اور کنیت کا تذکرہ کیا۔ اور کہیں کوئی خفاء نہیں چھوڑا، امام ترمذی ماہرعلم رجال میں سے تھے اسی لئے آپ کی کتاب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کتاب مجتہد کے لئے تنہا کافی ہے اور تقلید کرنے والے کو اس کی تقلید سے بے نیاز کردینے والی ہے۔
شاہ عبد العزیز دہلوی بستان المحدثین میں لکھتے ہیں: امام ترمذی کی علم حدیث کے اندر متعدد تصانیف ہیں جن میں سب سے بہترین تصنیف جامع ترمذی ہے۔ اس کتاب میں چند خوبیاں ایسی ہیں جس کی بنا پر یہ تمام کتب احادیث سے بہتر اور فائق ہے۔
پہلی خوبی یہ ہے کہ اس کی ترتیب بہت اچھی ہے اور اس میں تکرار نہیں پائی جاتی۔
دوسری خوبی یہ ہے کہ اس میں حدیث کا ذکر کر کے اس کے وجوہ استدلال اور اس سے مستنبط احکام اور فقہی مذاہب کو بیان کیا گیا ہے۔
تیسری خوبی یہ ہے کہ اس میں حدیث کا حکم بیان کیا گیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے یا حسن یا یہ ضعیف، غریب اور معلل ہے۔
چوتھی خوبی یہ ہے کہ اس میں حدیث کے راوی کا نام اور کنیت کے بارے میں تفصیل بیان کی گئی ہے اورعلم اسماء الرجال کے تعلق سے جو دیگر فوائد تھے ان کو بیان کیا گیا ہے۔
شیخ ابراہیم بیجوری (ت: 1276ھ) اپنی کتاب: ''المواهب اللدنية على الشمائل المحمدية'' میں لکھتے ہیں: امام ترمذی کی جامع حدیث اور فقہ دونوں کے فوائد کی جامع ہے، جس میں سلف اور خلف سب کے مذاہب کا علم موجود ہے یہ مجتہد کے لئے تنہا کافی ہے اور تقلید کرنے والے کو اس کی تقلید سے بے نیاز کردینے والی ہے۔
علامہ طاش کبری زادہ جامع ترمذی کے بارے میں لکھتے ہیں: امام ترمذی امام اور حافظ حدیث تھے، علم حدیث میں ان کی بہت ساری بہترین تصنیفات ہیں جن میں سے ایک جامع ترمذی بھی ہے جو بہترین اور مفید تر کتب احادیث میں سے ایک ہے، جس کی ترتیب بھی بہت اچھی ہے، اس میں تکرار بہت کم ہے، اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں بہت سارے مذاہب کا تذکرہ ہے، جبکہ دیگر کتابوں میں ایسا نہیں ہے۔ نیز اس میں حدیث کی انواع و اقسام کو بیان کیا گیا ہے جیسے صحیح، حسن اور غریب اور اس میں احادیث اور اس کی اسناد پر جرح و تعدیل کی گئی ہے اور کتاب کے آخر میں علل حدیث کو بیان کیا گیا ہے، اور اس میں بہترین فوائد کو جمع کیا گیا ہے۔ جو شخص بھی اس کتاب کا مطالعہ کرے گا اس پر یہ خوبیاں چھپی نہیں رہ سکتیں۔