جامع ترمذی کا شمار ان چھ کتب احادیث کے اندر ہوتا ہے جن کی بیشتر احادیث صحیح ہیں اورجو ''صحاح ستہ'' کہلاتی ہیں۔ امام ترمذی خوداپنی سنن کے بارے میں فرماتے ہیں: جب میں نے یہ کتاب تصنیف کی تو اسے حجاز، عراق اور خراسان کے علمائے حدیث پر پیش کیا، سبھوں نے اس کو پسند کیا، نیز امام ترمذی فرماتے ہیں: جس گھر میں یہ کتاب پائی جائے تو سمجھو کہ اس گھر میں گویا خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کلام کر رہے ہیں (تذکرۃ الحفاظ 2/634، والسیر 13/374، تہذیب التہذیب 9/389)۔
امام ذہبی اپنی کتاب سیراعلام النبلاء میں اس کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جامع ترمذی میں علم نافع، اہم فوائداور رؤس مسائل ہیں، جامع ترمذی اصول اسلام (اسلامی مراجع)میں سے ایک ہے، کاش کہ ترمذی نے اس کتاب کو ضعیف احادیث جن میں بعض موضوع ہیں اور اُن کی اکثریت فضائل میں ہے سے نہ مکدرکیا ہوتا۔ (السیر: 13/274)۔
علامہ البانی نے ضعیف سنن ترمذی کے مقدمہ میں امام ترمذی کے اس قول کی صحت پر کلام کیا ہے، اس لیے کہ ترمذی سے اس قول کی روایت کرنے والا راوی منصور بن عبداللہ ابوعلی، متفق علیہ ضعیف بلکہ متہم بالکذب راوی ہے، اور اس راوی کی وفات (402ھ) میں ہوئی ہے، اور ترمذی کی وفات (276ھ) میں اور ان دونوں کے درمیان (126) سال کا فاصلہ ہے، یعنی پیچ سند میں دو یا دوسے زیادہ راوی ساقط ہیں، پس یہ روایت معضل ہے، نیز اس طرح کی مبالغہ آمیز کتا ب کی تعریف امام ترمذی سے صادر ہو، یہ بہت زیادہ بعید بات ہے، اس لیے کہ اُن کو یہ معلوم تھا کہ اس میں ایسی بھی احادیث ہیں، جن کی روایت ضعف اور نکارت کی بناپر بغیر بیان اور وضاحت کے جائز نہیں ہے، جیساکہ خود امام موصوف نے اسباب ضعف بیان کیے ہیں، اور اگر ایسا نہ ہوتا تو اس کتاب کی خوبیوں پر یہ ایک دھبہ ہوتا، اس لیے اس کتاب کو جامع صحیح کہنا کوئی اچھی بات نہیں (15-16)۔
حافظ ابو الفضل محمد بن طاہر مقدسی (ت: 507ھ) کہتے ہیں: شیخ الاسلام امام ابو اسماعیل عبد اللہ بن محمد انصاری ہروی امام ترمذی کی کتاب جامع ترمذی کے متعلق کہتے ہیں: میرے نزدیک امام ترمذی کی کتاب جامع ترمذی صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے زیادہ مفید ہے، ان سے کہا گیا کہ یہ کیسے تو انہوں نے فرمایا: کیونکہ صحیحین صرف علماء، فقہاء اور محدثین کے لئے مفید ہے جبکہ ترمذی کی کتاب السنن سے علماء، فقہاء، محدثین اور عامۃ الناس سبھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ (السیر 13/277)۔
قاضی ابو بکر ابن العربی (468-543ھ) عارضۃ الاحوذی فی شرح سنن الترمذی میں لکھتے ہیں: صحیح بخاری جو کہ موطا امام مالک کے بعد کی تألیف ہے اور یہ دونوں کتابیں ساری کتب احادیث کی اساس اور بنیاد ہیں جن میں صحیح مسلم بھی ہے اور ان تینوں کے بعد جامع ترمذی کا مقام ہے۔ لیکن جملہ کتب احادیث میں جامع ترمذی میں جو حلاوت، نفاست اور چاشنی ہے وہ بقیہ کتابوں میں نہیں ہے۔ اس میں بارہ قسم کے علوم ہیں اور یہ باعتبار عمل کے زیادہ سلیم اورقریب تر ہے۔ امام ترمذی نے حدیث کی سند بیان کی، اس کی تصحیح و تضعیف کی اور متعدد طرق کا ذکر کیا اور اس پر جرح و تعدیل کی۔ رواۃ کے نام اور ان کی کنیت کو بیان کیا، اسانید کے اتصال اور انقطاع کو بیان کیا، معمول بہ اور متروک احادیث کو واضح کیا، احادیث وآثار کے رد و قبول کے بارے میں موجود علمائے حدیث کے اختلافات کو بیان کیا۔ اور اس کی تاویل میں جو اختلاف تھا اس کو ذکر کیا، یہ سارے علوم علم حدیث کے بنیادی اصول میں سے ہیں، یہ انفرادیت و امتیازصرف جامع ترمذی کو حاصل ہے، اور یہ ساری چیزیں اس کتاب کے پڑھنے والے پر پوشیدہ نہیں رہ سکتی ہیں۔ (عارضۃ الاحوذی فی شرح الترمذی)۔
امام عزالدین ابن الاثیرالجزری (555-630ھ) کہتے ہیں: ترمذی امام، اور حافظ حدیث تھے ان کی بہترین تصنیفات ہیں جن میں سے حدیث میں الجامع الکبیر ہے جو بہترین کتاب ہے (الکامل فی التاریخ 7/460)۔
نیز ابن الأثیر کہتے ہیں: صحیح جامع ترمذی بہترین اور مفید تر کتب احادیث میں سے ہے۔ جس کی ترتیب بڑی ہی اچھی ہے، اس میں تکرار بھی کم ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس میں مختلف مذاہب اور ان کے وجوہ استدلال کا بھی ذکر ہے۔ اس میں حدیث کی اقسام صحیح، ضعیف اور غریب کو واضح کیا گیا ہے اور اس میں جرح و تعدیل بھی کی گئی ہے۔
امام ابو عبد اللہ محمد بن عمر بن رشید فہری (657-721ھ) کہتے ہیں: میرے نزدیک تحقیق سے قریب تر بات یہ ہے کہ جامع ترمذی میں احادیث ابواب کے تحت لکھی گئی ہیں جو بذات خود ایک علم ہے، دوسرا علم فقہ ہے، اور تیسرا علم علل حدیث ہے جو حدیث کے صحیح و ضعیف ہونے اور ان کے مابین درجات کے بیان پر مشتمل ہے۔ چوتھا علم (رواۃ حدیث کے) اسماء وکنی کاہے، پانچواں علم جرح و تعدیل ہے۔ چھٹا علم یہ ہے کہ جس تک حدیث کی سندپہنچی ہے آیا اس نے نبی اکرم ﷺ کو پایا ہے یا نہیں۔ ساتواں علم یہ ہے کہ حدیث کو جن متعدد لوگوں نے روایت کیا ہے اس کو بیان کیا جائے۔ یہ چند اجمالی علوم ہیں جوجامع ترمذی میں پائے جاتے ہیں۔ جب کہ تفصیلی علوم تو متعدد ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ جامع ترمذی میں بہت سارے فوائد پائے جاتے ہیں۔ (قوت المغتذی للسیوطی 1/15، مقدمۃ تحفۃ الأحوذی)۔
حافظ ا بن سید الناس (ت: 734ھ) فرماتے ہیں: آٹھواں علم جو جامع ترمذی میں پایا جاتا ہے شاذ روایتیں ہیں جس کا ذکر نہیں ہوا اور نواں علم موقوف روایات ہیں، اسی طرح مدرج روایات۔ ان سب کی موجودگی سے بہت سارے فوائد حاصل ہوتے ہیں، علاوہ ازیں اس میں وفیات کی قلت ہے اور معرفت طبقات رواۃ وغیرہ کی جانب اشارے ہیں۔ یہ ساری چیزیں علوم حدیث کی معرفت اورعلم میں اضافہ کرنے والیٰ ہیں جن سے علم حدیث کی معرفت میں تفصیلی فوائد حاصل ہوتے ہیں (قوت المغتذی للسیوطی)۔
علامہ طاش کبری زادہ جامع ترمذی کے بارے میں لکھتے ہیں: وہ امام اورحافظ حدیث تھے، علم حدیث میں ان کی بہت ساری بہترین تصنیفات ہیں جن میں سے ایک جامع ترمذی بھی ہے جو بہترین اور مفید تر کتب احادیث میں سے ہے۔ جس کی ترتیب بھی بہت اچھی ہے اس میں تکرار بہت کم ہے نیز اس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بہت سارے مذاہب کے بارے میں بھی مذکور ہے۔ جبکہ دیگر کتابوں میں ایسا نہیں ہے۔ اس میں حدیث کی انواع و اقسام کوبھی بیان کیا گیا ہے جیسے صحیح، حسن اور غریب اور اس میں احادیث اور اس کی اسناد پر جرح و تعدیل کی گئی ہے اور کتاب کے آخر میں علل حدیث کو بیان کیا گیا ہے۔ اور اس میں بہترین فوائد کو جمع کیا گیا ہے۔ اور جو بھی اس کو پڑھے گا اس پر یہ خوبیاں چھپی نہیں رہ سکتی ہیں۔