سنن ترمذی کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امام ترمذی اپنے شیوخ بالخصوص امام بخاری کی طرح کتاب وسنت سے آزادانہ طور پر استدلال کرتے اور صحیح اور ثابت شدہ مسئلے پر عمل کرتے تھے، اور اپنے اسلاف معتبر فقہائے امت کے فتاویٰ سے استفادہ کرتے تھے، جس کی آپ کو گہری واقفیت تھی، تیسری صدی ہجری میں تقلید مذاہب کا کوئی رواج بھی نہ تھا، لیکن تقلیدکے رسیا بعض لوگوں نے امام ترمذی کوبھی مقلدین کی فہرست میں شامل کردیا، چنانچہ بعض علمائے حنفیہ کے نزدیک آپ امام شافعی کے مقلد شافعی المذہب تھے جبکہ بعض دیگر حضرات کے نزدیک آپ امام احمد بن حنبل کے مقلدحنبلی المذہب تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی نسبت خانہ ساز، اور دلائل سے عاری ہے، کیونکہ محدثین کا قرآن و سنت کی روشنی میں اختیار کردہ اپنا ایک مستقل اور متفقہ مسلک و منہج ہے جس کو ہم اتباع کتاب و سنت کے نام سے تعبیر کرسکتے ہیں۔
عملاً قرآن وحدیث اور آثار سلف کی خدمت میں زندگی گزارنے والے محدثین کو بالخصوص تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں کسی مخصوص امام کی تقلید کی ضرورت ہی نہیں تھی، ائمہ کے تعامل سے پتہ چلتا ہے کہ جہاں اُنہیں کسی مسئلہ میں نصوص کتاب و سنت اور آثار صحابہ و تابعین میں کوئی واضح بات نہ ملتی وہاں وہ خود قرآن و سنت کی روشنی میں اصولی طور پر اجتہاد کیا کرتے تھے، اس لئے محدثین کے بارے میں یہ کہنا کہ فلاں امام مالک، یا شافعی، یا احمد بن حنبل کے مقلد مالکی، یا شافعی یا حنبلی المذہب تھے دلیل سے عاری اور امرواقع کے خلاف بات ہے، اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ان ائمۂ حدیث میں سے کسی نے بھی کسی ایک کے قول کی تائید و ترجیح کا طریقہ نہیں اپنایا، بلکہ محدثین کرام نے قرآن و سنت کی روشنی میں اختیار کردہ اپنے متفقہ مسلک و منہج اور مذہب اتباع کتاب و سنت کی بنا پر (جو نصوص کتاب وسنت کے مطابق ہو) جو صحیح و راجح تھا اسی کو صحیح و راجح قرار دیا۔ اور جو اس کے مخالف تھا اس کا رد و ابطال کیا۔
علامہ عبدالرحمن محدث مبارکپوری تحفۃ الأحوذی کے مقدمہ میں فائدہ کے عنوان سے امام ترمذی اور دوسرے محدثین کی فقہی نسبت کے بارے میں فرماتے ہیں: بعض حنفی علماء کے خیال میں امام ترمذی شافعی المذہب تھے، اور بعض لوگوں نے آپ کو حنبلی المذہب کہا ہے، یہ ان کے اپنے خانہ ساز اقوال اور زعم باطل دعوی ہے، حقیقت یہ ہے کہ امام ترمذی نہ تو شافعی تھے اور نہ ہی حنبلی، نیز وہ مالکی اور حنفی بھی نہ تھے، بلکہ آپ کا شمار اصحاب الحدیث میں سے ہے، آپ سنت کے عامل اور متبع تھے، مجتہد تھے، کسی کے مقلد نہ تھے، جامع ترمذی کو جس نے پڑھا اور اس میں غوروفکر کیا ہے، اس کے لیے یہ بات بالکل واضح اور صاف ہے تعجب کی بات یہ ہے کہ لوگوں نے اپنے زعم میں امام ترمذی کو شافعی یا حنبلی کہا، کیا ان حضرات کو اس بات کا پتہ نہیں ہے کہ اگر امام ترمذی امام شافعی کے مقلد ہوتے تو مختلف فیہ سارے یا اکثر مسائل میں اپنے امام کے مذہب کو دوسرے مذاہب کے مقابلے میں راجح قرار دیتے، اور اسی کی حمایت وتائید کرتے جیسا کہ مقلدین حضرات کاطریقہ ہے، لیکن آپ نے ایسا نہ کیا، بلکہ بعض مقامات پر امام شافعی کے اقوال کی تردید فرمائی، اور اتباع دلیل کو زیادہ بہتر قرار دیا، پھر اس کو کئی مثالوں کے ذریعے واضح کیا، اس کے بعد امام ترمذی کا یہ کہنا کہ ہمارے اصحاب کے نزدیک عمل یہ اور یہ ہے، کا مطلب واضح فرمایا، امام ترمذی بار بار اپنی سنن کے ابواب میں کہتے ہیں: والعمل على هذا عند أصحابنا منهم الشافعي، وأحمد وإسحاق...یعنی ہمارے اصحاب اہل الحدیث جن میں مالک، شافعی، احمد بن حنبل، اوراسحاق وغیرہ ہیں کے یہاں اس پر عمل رہا ہے۔ علامہ مبارکپوری ''اصحابنا'' کا معنی بیان کرتے ہوئے واضح کرتے ہیں کہ ''اصحابنا '' سے مراد اصحاب الحدیث ہیں جن کا مسلک اور مذہب، مذہب اہل حدیث ہے جن میں امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ وغیرہ سبھی شامل ہیں، ان سارے محدثین کا مسلک اتباع دلیل ہے اور اسی کو مذہب ومسلک اہل حدیث کہا جاتا ہے۔
پھرملاعلی قاری سے ترمذی کی اصطلاح ''اصحابنا'' کا معنی نقل کرتے ہیں کہ اس سے ان کی مراد'' اہل حدیث'' ہیں، اور یہی قول امام طیبی کا ہے (المرقاۃ شرح المشکاۃ)۔ محدث مبارکپوری اس کے بعد کہتے ہیں: یہی بات حق اور صواب ہے، امام ترمذی کے اقوال سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔
امام حاکم نے معرفۃ علوم الحدیث کی بیسویں قسم کا عنوان'' معرفۃ فقہ الحدیث'' رکھا ہے، وہ کہتے ہیں: فقہ حدیث کی معرفت علوم حدیث کا ثمرہ اور نتیجہ ہے اور اسی سے شریعت قائم ہوتی ہے، رہ گئے فقہائے اسلام تو وہ قیاس، رائے، استنباط اور جدل ونظر والے ہوتے ہیں، وہ ہر زمانے میں معروف ہوتے ہیں، اور ہرشہرمیں پائے جاتے ہیں، ہم اس قسم میں اللہ کے حکم سے اہل حدیث سے فقہ حدیث کاتذکرہ کریں گے تاکہ اس سے اس بات پر استدلال کیا جائے کہ صنعت حدیث والے جنہوں نے اس علم میں کمال حاصل کیا ہے، وہ فقہ حدیث سے ناواقف نہیں ہوتے، اس لیے کہ فقہ حدیث، علم حدیث کی ایک قسم ہے، اس کے بعد اہل حدیث فقہاء کا تذکرہ کرتے ہیں اورہر ایک فقیہ سے بعض اقوال اور روایات فقہ حدیث سے متعلق نقل کرتے ہیں، اُن کے ذکرکردہ فقہاء یہ ہیں:
1-محمد بن مسلم الزہری، 2- یحیی بن سعید الانصاری، 3- عبدالرحمن بن عمرو الاوزاعی، 4- سفیان بن عیینہ الہلالی، 5-عبداللہ بن المبارک المروزی، 6- یحیی بن سعید القطان، 7- عبدالرحمن بن مہدی، 8- یحیی بن یحیی التمیمی، 9-احمد بن حنبل، 10- علی بن المدینی، 11- یحیی بن معین، 12- اسحاق بن راہویہ، 13- محمد بن یحیی الذہلی، 14- محمد بن اسماعیل البخاری، 15- ابوزرعہ عبیداللہ بن عبدالکریم الرازی، 16- ابوحاتم محمد بن ادریس الرازی، 17- ابراہیم بن اسحاق الحربی، 18- مسلم بن الحجاج القشیری، 19- ابوعبداللہ محمد بن ابراہیم العبدی البوشنجی، 20- عثمان بن سعید الدارمی، 21-محمد بن نصر المروزی، 22- احمد بن شعیب النسائی، 23- ابوبکرمحمد بن اسحاق ابن خزیمہ، ان کے تذکرہ کے بعدامام حاکم کہتے ہیں: میں نے یہ باب مختصر طورپر لکھاہے، اور اپنے ائمہ کی ایک جماعت کے نام میں نے یہاں چھوڑدیے ہیں، جب کہ حق یہ تھا کہ میں اُن کا یہاں پر تذکرہ کرتا، ان میں سے 24- ابوداود السجستانی، 25- محمد بن عبدالوہاب العبدی، 26-ابوبکر الجارودی، 27- ابراہیم بن ابی طالب، 28- ابوعیسیٰ الترمذی، 29- موسیٰ بن ہارون البزاز، 30- حسن بن علی المعمری، 31- علی بن الحسین ابن الجنید، 32- محمد بن مسلم بن و ارہ، 33- محمدبن عقیل البلخی وغیرہ ہمارے مشائخ ہیں رضی اللہ عنہم (معرفۃ علوم الحدیث 63-85)۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ صحاح ستہ کے مؤلفین میں پانچ ائمہ کا ذکر فقہائے حدیث کی اس فہرست میں موجود ہے، اور وہ بخاری، مسلم، ابوداود، نسائی اور ترمذی ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ -رحمہ اللہ- نے اپنے فتاویٰ اور رسائل میں فقہائے حدیث کی اصطلاح سکیڑوں بار استعمال کی ہے، اور مسائل میں اُن کے دلائل اور ترجیحات کاذکرکیا ہے، اور بہت سارے ائمہ کانام بھی لکھاہے، اس وقت حدیث کے متوفر بعض پروگراموں کے ذریعے سے کمپیوٹر کی مدد سے منٹوں میں یہ فہرست دیکھی جاسکتی ہے، خلاصہ یہ کہ فقہ الحدیث ایک بڑا تابناک باب ہے، جس میں بے شمار فقہائے حدیث کی خدمات ہیں، اور یہ امت میں معروف لوگ ہیں، اور ان کے علوم بھی الحمدللہ محفوظ ہیں۔
علامہ عبدالرحمن مبارکپوری اہل الحدیث کی شناخت اور تعریف کے موضوع کی وضاحت کرتے ہوئے مزید کہتے ہیں: ایک حنفی عالم جامع ترمذی کے حاشیہ میں کہتے ہیں: مؤلفین صحاح کے مذاہب کے بارے میں کہا گیا کہ امام بخاری شافعی تھے، لیکن حق یہ ہے کہ بخاری مجتہد تھے، رہ گئے امام مسلم تو تحقیقی طور پر مجھے آپ کے مذہب کا علم نہیں ہے، لیکن ابن ماجہ تو شاید وہ شافعی تھے، اور ترمذی شافعی ہیں، اور ابوداود اور نسائی کے بارے میں مشہو رہے کہ یہ دونوں شافعی ہیں، لیکن حق یہ ہے کہ یہ دونوں حنبلی ہیں، اور حنابلہ کی کتابیں ابوداود کی روایات سے منقول امام احمد کے اقوال سے بھری پڑی ہیں، اس پر تبصرہ کرتے ہوئے مبارکپوری -رحمہ اللہ- فرماتے ہیں: میں کہتا ہوں کہ جیسے امام بخاری -رحمہ اللہ - متبع سنت اور عامل بالحدیث تھے اور ائمہ اربعہ وغیرہ میں سے کسی کے مقلد نہیں تھے، ایسے ہی مسلم، ترمذی، ابوداود، نسائی اور ابن ماجہ سب کے سب متبع سنت اور عامل بالحدیث تھے، مجتہد تھے، کسی کے مقلد نہ تھے، رہ گیا یہ استدلال کہ حقیقت میں ابوداوداور نسائی حنبلی ہیں اس دلیل سے کہ امام احمد کے اقوال ابوداود کی روایت سے حنابلہ کی کتابوں میں بھرے پڑے ہیں تویہ بالکل باطل استدلال ہے، اس لیے کہ ابوداود کی روایات سے حنابلہ کی کتابوں کا بھراہونا تسلیم کربھی لیا جائے تو اس سے ان کا حنبلی ہونا لازم نہیں آتا چہ جائیکہ ابوداود اور نسائی دونوں حنبلی ہوں، کیا آپ یہ نہیں دیکھتے کہ حنفیہ کی کتابیں امام ابویوسف اورامام محمد کی روایات سے بھری پڑی ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ دونوں نہ حنفی تھے، اور نہ امام ابوحنیفہ کے مقلد، اور یہ بھی جان لیں کہ بعض لوگوں نے یہ دعوی کیا کہ امام ابوداود اور امام نسائی دونوں حنبلی تھے، یعنی مطلقا بغیر کسی قید کے یہ دونوں امام احمد بن حنبل کے مقلد تھے۔
پھر اپنی اس بات پر اُن کو انتباہ ہوا تو ایک درجہ پیچھے آکر سنن الترمذی کے ایک حاشیہ میں کہتے ہیں: یحیی بن سعید جیسا کہ تاریخ ابن خلکان میں ہے حنفی المذہب تھے، إلا یہ کہ سلف کی تقلید اُن اجتہادی مسائل کے بارے میں ہواکرتی تھی جس میں کوئی مرفوع حدیث یا موقوف (آثار صحابہ) نہ ہوں، ہماری تقلید کی طرح نہیں، یہ میرا اپنا ظن ہے۔
اس کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ مبارکپوری کہتے ہیں: اجتہادی مسائل میں کسی صحیح دلیل سے امام ابوداود اور امام نسائی کا امام احمد کا مقلد ہونا ثابت نہیں ہے، بس صرف یہ بعض ان حضرات کا ظن ہی ظن ہے، اور ظن حق کے باب میں غیر مفید ہے، اور اُن کا یہ کہنا کہ شاید ابن ماجہ شافعی تھے، یہ بھی اس کے قائل کے نزدیک ابن ماجہ کے شافعی ہونے کی دلیل نہیں ہے، ایک حنفی عالم صحیح مسلم کی شرح میں مقدمہ میں توضیح النظر سے نقل کرتے ہیں: بعض حدیث کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بخاری اور ابوداود دونوں فقہ کے امام اور اہل اجتہاد میں سے ہیں، اور مسلم، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابن خزیمہ، ابویعلی اور بزار وغیرہ یہ سب اہل حدیث کے مذہب پر ہیں، یہ کسی خاص اور متعین امام کے مقلد نہیں ہیں، اورنہ ان کا شمار مجتہد مطلق اماموں میں سے ہے، بلکہ ان کا میلان ائمہ حدیث جیسے شافعی، احمد، اسحاق بن راہویہ اور ابوعبید قاسم بن سلام اور ان کے ہم مثل علماء کی طرف ہوتا ہے۔ اور ان کا میلان (جھکاؤ) علمائے حجاز کے مذہب کی طرف اہل عراق کے مذہب سے زیادہ ہوتا ہے، رہ گئے امام ابوداود الطیالسی تو یہ مذکورہ بالا ائمہ میں سے سب سے قدیم امام ہیں، اور یہ یحیی بن سعید القطان، یزید بن ہارون واسطی، عبدالرحمن بن مہدی اور اس طبقہ کے علماء میں سے ہیں، جو احمد بن حنبل کے شیوخ کا طبقہ ہے، یہ سب کے سب اتباع سنت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، ہاں ان میں سے بعض کا میلان اہل عراق کے مذہب کی طرف ہوتا ہے، جیسے وکیع بن الجراح اور یحیی بن سعید اور بعض کا میلان اہل مدینہ کی مذہب کی طرف ہوتا ہے، جیسے عبدالرحمن بن مہدی، اورامام دار قطنی کا میلان شافعی کے مذہب کی طرف ہے، لیکن ان کے اپنے اجتہاد ات ہیں، اور ان کا شمار ائمہ حدیث وسنت میں ہے، اور اُن کا حال کبار محدثین کی طرح نہیں ہے، جو ان کے بعد آئے، اور عام اقوال میں تقلید کا التزام کیا، صرف محصور معدود مسائل کے علاوہ، امام دار قطنی متاخرین میں سب سے زیادہ اجتہاد میں قوی تھے، اور سب سے زیادہ فقیہ اور عالم، انتہی۔
پھر حنفی محشی لکھتے ہیں: ظاہر ہے کہ ابوداود حنبلی مذہب سے زیادہ قریب ہیں، کیونکہ حنابلہ کی کتابیں ان کے روایت کردہ امام احمد کے اقوال سے پٹی پڑی ہیں، اس قول کو موصوف نے العرف الشذی سے نقل کیا ہے، اوپر اس کا جواب آپ کو معلوم ہوگیا ہے، اب اگر آپ یہ کہیں کہ اگر امام بخاری امام شافعی کے مقلد نہیں تھے تو لوگوں نے اُن کا شمار شافعیہ میں کیوں کیاہے، اور شافعی علماء کے طبقات کی کتابوں کے مؤلفین نے اُن کو اپنی کتابوں میں کیوں ذکر کیا ہے، تواس کے جواب میں میں کہتا ہوں کہ علامہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (م 1176ھ) حجۃ اللہ البالغہ (1/122) میں لکھتے ہیں: اصحاب حدیث فقہی مذاہب میں سے کسی مذہب کی بکثرت موافقت کی وجہ سے اس کی طرف منسوب کردیے جاتے ہیں، جیسے نسائی اور بیہقی کو شافعی مذہب کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، اور الانصاف فی مسائل التقلید والاجتہاد میں کہتے ہیں کہ شافعی مذہب کی طرف انتساب کا مطلب یہ ہے کہ طریقہ اجتہاد اور دلائل کے استقراء وتتبع ومسائل ودلائل کی ترتیب وتدوین میں اُن کا طریقہ اجتہاد شافعی کے طریقہ اجتہاد کے موافق ہے، اور اگر کبھی مخالفت بھی کی تو اُس کی مخالفت کی پرواہ نہ کی گئی، اور چند مسائل کے علاوہ وہ شافعی کے مذہب سے باہر نہیں گیا، اور یہ شافعی کے مذہب میں داخل ہونے میں قادح نہیں ہے، اسی قبیل سے امام محمد بن اسماعیل بخاری ہیں کہ شیخ تاج الدین سبکی نے آپ کا شمار طبقات شافعیہ میں کیا ہے، اور لکھاہے کہ امام بخاری نے امام حمید ی سے فقہ حاصل کی، اور امام حمیدی نے امام شافعی سے فقہ حاصل کی (طبقات الشافعیہ /2/214)۔
علامہ اسماعیل عجلونی اپنی کتاب الفوائد الدراری میں سبکی کے مذکورہ بالا قول کو نقل کرنے کے بعدکہتے ہیں: امام بخاری کے مذہب کے بارے میں اختلاف ہے، ایک قول یہ ہے کہ آپ شافعی المذہب ہیں، تاج الدین سبکی نے طبقات الشافعیہ میں اسی لیے آپ کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ امام بخاری کا ابوعاصم نے طبقات شافعیہ میں ذکرکیاہے، اور کہا ہے کہ بخاری نے کرابیسی، ابوثور اور زعفرانی سے سماع حدیث کیا اور حمیدی سے فقہ حاصل کی، یہ سب امام شافعی کے اصحاب وتلامیذہیں، ایک قول یہ بھی ہے کہ امام بخاری حنبلی تھے، ابوالحسن ابن العراقی نے آپ کو اصحاب امام احمد بن حنبل میں شمارکیا ہے، اور بخاری سے سنداً یہ قول نقل کیا ہے کہ میں آٹھ بار بغداد آیا، اور ہر بار احمد بن حنبل کی مجلس میں حاضرہوا، آخری بار جب میں نے آپ کو الوداع کہا تو مجھ سے فرمایا: ابوعبداللہ آپ علم چھوڑرہے ہو، علماء کو خیرباد کہہ رہے ہو، اور خراسان جا رہے ہو، بخاری کہتے ہیں: میں اس وقت آپ کا قول یاد کررہاہوں۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ امام بخاری مجتہد مطلق تھے، امام سخاوی نے اسی قول کو اختیار کیاہے، اور کہا ہے کہ میرا میلان یہی ہے کہ امام بخاری مجتہد تھے، اس کی صراحت تقی الدین ابن تیمیہ نے فرمائی ہے کہ امام بخاری امام فقہ تھے، اجتہاد کے اعلیٰ مرتبہ پر تھے (مجموع الفتاویٰ 20/40)، (ملاحظہ ہو: مقدمۃ تحفۃ الأحوذی /278-281، نیز ملاحظہ ہو: سیرۃ البخاری تالیف: علامہ عبدالسلام مبارکپوری)۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (م 1176ھ) نے بھی اس مسئلے کو اچھی طرح سے حجۃ اللہ البالغہ میں باب الفرق بین اہل الحدیث وأہل الرای میں واضح کردیا ہے، اس سے پہلے امام ابن عبدالبر نے جامع بیان العلم وفضلہ میں اس مسئلے کو تفصیل سے لکھاہے، یہ الگ بات ہے کہ کسی جزوی مسئلہ میں کہیں کہیں بعض کا بعض سے جزوی اختلاف پایا جاتا ہو لیکن اُصولی طور پر سارے محدثین کا مسلک اتباع دلیل اور ترک تقلید ہے، یعنی اصطلاحی لفظوں میں اُن کا مذہب ومسلک اصول وفروع میں اہل حدیث کا مذہب ومسلک ہے۔
صحیح حدیث پر عمل کرنا اور اختلاف کے وقت اصول وفروع میں اس کی طرف رجوع کرنا اور اس کو حکم تسلیم کرنا سلف کا اجماعی مسئلہ ہے، اہل رائے وقیاس جن کی اکثریت عراق میں تھی، سے اسی بناپر ائمہ حدیث اجتناب کرتے تھے کہ وہ حدیث کی موجودگی میں قیاس اور رائے پر اعتماد کرتے تھے، جو سلف کے یہاں متفقہ طور پر مذموم بات تھی، صحیح قیاس کا کوئی منکر نہ تھا، اور نہ ہی کوفہ اور بصرہ میں رہائش کی بناپر کوئی شخص قابل مذمت، اہل علم کے یہاں یہ بات بالکل واضح اور صاف ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اہل سنت علماء اور ائمہ کے اصول وفروع میں مسلک کو مختلف جگہوں پر واضح فرمایاہے، چنانچہ آپ کا رسالہ صحۃ مذہب أہل المدینۃ والحدیث، نقض المنطق، الرد علی المنطقیین، اور عقائد اور شرح احادیث سے متعلق بحثوں میں اس بارے میں تفصیل ملے گی، اس باب میں کہ کتاب وسنت کی مرجعیت پر اجماع ہوتے ہوئے علماء کے درمیان اختلاف کیوں ہے، نیز اختلاف کے کیا اسباب ہیں، اور دلائل کی موجودگی میں کسی رائے اور فتوے پر عمل کرنا یا دلیل کے مطابق عمل کرنا، کونسا مسلک صحیح اوراقرب الی الکتاب والسنہ ہے، اس سلسلے میں آپ نے رفع الملا م عن الأئمۃ الأعلام کتاب لکھی، اور اس مسئلہ کو منقح کیا، جس کا حاصل یہ ہے کہ کتاب وسنت صحیحہ پر عمل سلف صالحین کے فہم کی روشنی میں ایک اجماعی مسئلہ ہے، اختلاف کی صورت میں فقہاء کے لیے شرعی اعذار کو تلاش کیا جائے گا، لیکن صحیح حدیث پر عمل کرنا واجب ہے، چاہے اس کے خلاف جتنے بھی اقوال وآراء ہوں۔
زہد وتقوی: امام ترمذی نہ صرف یہ کہ علوم وفنون میں امامت کا درجہ رکھتے تھے بلکہ آپ عبادت وتقویٰ اور ورع اور زہد میں بھی شہرت رکھتے تھے، حاکم کہتے ہیں: امام بخاری کا انتقال ہواتو انہوں نے علم حفظ اور زہد ورع میں ترمذی کی طرح کسی اور کو اپنے پیچھے نہیں چھوڑا، آپ اللہ کے ڈرسے اتنا روتے تھے کہ اندھے ہوگئے، اور کئی سال اندھے رہے (تذکرۃ الحفاظ، تہذیب التہذیب)۔