۱ - کتاب الجامع الصحیح (سنن الترمذی)۔
امام ترمذی کی یہ کتاب مختلف ناموں سے مشہورہے،(۱) اسے جامع ترمذی کہتے ہیں،(۲) نیز سنن الترمذی کے نام سے بھی اس کی شہرت ہے، اس کا پورا نام یہ ہے: الجامع المختصر من السنن عن رسول الله ﷺ ومعرفة الصحيح والمعلول وما عليه العمل (فہرست ابن خیر،ص: ۹۸)۔
حاجی خلیفہ کشف الظنون میں جامع ترمذی کے متعلق لکھتے ہیں: اس کتاب کے مؤلف کی طرف منسوب ہوکر یہ جامع ترمذی کے نام سے مشہور و معروف ہے البتہ اسے سنن ترمذی بھی کہا گیا ہے لیکن پہلا نام زیادہ مشہور و معروف ہے۔
(۳) امام حاکم نے اس کا نام جامع صحیح ترمذی کہا ہے، اور خطیب بغدادی نے اس پر اور امام نسائی کی سنن پر صحیح کا اطلاق کیا ہے(تدریب الراوی)۔
جامع ترمذی پر جامع صحیح یاصحیح کا اطلاق کیا گیا ہے، جبکہ اس میں ضعیف احادیث بھی پائی جاتی ہیں، اس کتاب پرصحیحکا اطلاق اس کی غالب احادیث کے صحیح اور قابل حجت ہونے کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ اور اس میں ضعیف احادیث بہت ہی کم پائی جاتی ہیں۔ اس پر صحیح کا اطلاق اسی طریقے سے ہے جیسے صحاح ستہ ان چھ کتابوں (بخاری، مسلم، جامع ترمذی، سنن ابو داود، سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ) کی غالب احادیث کے صحیح اور قابل حجت ہونے کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ جبکہ صحیحین کے علاوہ بقیہ چاروں میں کچھ ضعیف احادیث بھی پائی جاتی ہیں اور ان کی غالب احادیث صحیح ہیں۔
(۴) اس کتاب کو جامع الترمذی بھی کہاجاتا ہے، اس لیے کہ اس کتاب میں فقہی کتب وابواب کے علاوہ ایمان، تفسیر، زہد، صفۃ القیامہ، رقائق، ورع، صفۃ الجنہ، امثال، مناقب وفضائل وغیرہ ابواب وکتب کا ذکرہے۔
۲- کتاب شمائل النبی ﷺ (مطبوع)
۳- کتاب العلل الصغیر (سنن کے آخرمیں)اس کتاب کا موضوع اصول حدیث اور منہج محدثین ہے، اس کی حافظ ابن رجب نے فاضلانہ شرح کی ہے، جو مطبوع ہے، واضح رہے کہ ابن رجب نے ترمذی کی شرح کی تھی لیکن وہ مفقود ہے، اور صرف شرح علل پائی جاتی ہے، اس کی شرح علامہ عبدالرحمن مبارکپوری نے بھی کی ہے، جس کا نام شفاء العلل في شرح كتاب العللہے،اورتحفۃ الأحوذی کے آخر میں مطبوع ہے۔
امام ترمذی کو صرف امام بخاری سے شرف تلمذہی نہیں حاصل تھا بلکہ آپ کی شہرت یہ بھی تھی کہ آپ امام بخاری کے علم کے حامل ووارث اور ناقل ہیں، چنانچہ سنن میں امام بخاری سے باربار افادات کو نقل کرتے ہیں، علل صغیر میں بھی آپ نے صراحت کردی ہے کہ اس کتاب میں علل احادیث، رجال اور تاریخ سے متعلق افادات کو میں نے بخاری کی تاریخ سے اخذ کیا ہے،اور اکثر مسائل پر امام بخاری سے مذاکرہ (تبادلہ خیال) ہوچکاہے، نیز بعض مسائل پر دار می (عبداللہ بن عبدالرحمن) سے بھی تبادلہ خیال ہوا، لیکن زیادہ تر امام بخاری سے،اور دارمی اور ابوزرعہ رازی سے بہت ہی کم (العلل ۱۰/۴۶۶-۴۶۷)۔
۴- کتاب العلل الکبیر: (ترتیب ابی طالب القاضی) یہ ایک مستقل تالیف ہے،جس کا موضوع علل احادیث ہے، اور یہ حمزہ دیب مصطفی کی تحقیق سے مکتبہ الاقصی سے (۱۴۰۶ھ) میں شائع ہوچکی ہے۔
۵- کتاب التاریخ (ابوسعد عبدالکریم السمعانی کی مرویات میں سے ہے، التحبیر فی المعجم الکبیر۲/۲۲۳)۔
۶- کتاب الزہد(مفقود)۔
۷- کتاب الأسماء و الکنی(مفقود)۔
۸- کتاب التفسیر(مفقود)۔
۹- مصنف کے طرز پر ایک بڑی کتاب جو مرفوع اور موقوف احادیث کا مجموعہ ہو: کتاب العلل میں جہاں امام ترمذی نے سنن میں اپنے مراجع ومآخذ کی اسانید کاذکر کیا وہیں اُس کے آخرمیں لکھتے ہیں کہ'' تفصیلی اسانید کاذکر اُس کتاب میں ہوگاجس میں موقوف کاتذکرہ ہوگا''، اُن کے اس بیان سے پتہ چلتا ہے کہ مؤلف کی مرفوع احادیث اور موقوف آثار سے متعلق اس سے بڑی کتاب ہے، جس میں سب چیزیں سند سے مذکورہیں، اور سنن ترمذی مرفوع احادیث پر مشتمل ہے، اور تھوڑے ہی موقوف اقوال اس میں مذکور ہیں(شرح العلل، ص: ۴۵)۔