سنن ابی داود کی خصوصیات:
سنن ابی داود کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ صرف احکام ومسائل سے متعلق روایات پرمشتمل ہے، امام صاحب سے پہلے اس قسم کی کتابیں لکھنے کارواج نہ تھا، بلکہ ان کاتعلق احکام، تفسیر وقصص، اخبار ومواعظ اورادب وزہد وغیرہ سے تھا، یعنی وہ جوامع اور مسانید تھیں جیسا کہرسالہ مکیہ میں امام صاحب نے خو د ہی ذکرکیا ہے، اور آپ نے ایک انو کھی راہ اختیار کی ہے، لہذا اپنی اسی خصوصیت کی بنا ء پر یہ کتاب ائمہ اور علماء آثار کی توجہات کا مرکز بن گئی، جیسا کہ اما م نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فأما السنن المحضة فلم يقصد أحد منهم جمعها واستيفائها ولم يقدر على تلخيصها واختصار مواضعها من اثناء تلك الأحاديث الطويلة كما حصل لأبي داود، لهذا حل كتابه عند أئمة أهل الحديث وعلماء الأثر محل العجب فضربت فيه اكباد الإبل ودامت إليه الرحل (تهذيب الاسماء واللغات ج 2 ص227).
رہ گیا سنن یعنی احادیث احکام کا معاملہ تو ان کی بھرپور جمع وتدوین، اور طویل احادیث سے ان کی تلخیص واختصار کا کام ا بو داود کے علاوہ کسی اور نے اس کا ارادہ نہیں کیا، ا س لئے ائمہء اہل حدیث اور علمائے حدیث وأثر کے یہاں یہ حیران کن تالیف ہے، جس کے حصول کے لئے اسفار ورحلات کا تسلسل برابر قائم رہا۔
2- فقہی احادیث کا جتنا بڑا ذخیرہ اس کتاب میں موجود ہے، وہ صحاح میں سے کسی دوسری کتاب میں نہیں، حافظ ابوجعفربن زبیرغرناطی (م 708؁ھ) صحاح ستہ کی خصوصیات کا ذکرکرتے ہوئے رقمطراز ہیں: <ولأبي داود في حصر أحاديث الأحكام واستيعابها ما ليس لغيره> (تهذيب الأسماء واللغات ج 2ص 227) ابوداود نے احادیث احکام کے حصر واستیعاب کا جو کام کیا ہے، وہ دوسروں نے نہیں کیا ہے۔
اور اسی وجہ سے یہ کتاب فقہاء ومجتہدین کا معتمد علیہ مأخذ رہی ہے۔
3- جامع ترمذی کی طرح سنن ابی داود کی بھی اکثر وبیشتر روایات ائمہ مجتہدین، تابعین وتبع تابعین، اور فقہاء امت میں معمول بہا ر ہی ہیں، خصوصا امام مالک رحمہ اللہ، ا مام سفیان ثوری رحمہ اللہ، امام اوزاعی رحمہ اللہ وغیرہ محدثین وفقہاء کے مسالک ومذاہب کے لئے یہ کتاب اصل وبنیاد کی حیثیت ر کھتی ہے۔
علامہ خطابی فرماتے ہیں کہ یہ فقہاء ومجتہدین کے اختلاف میں حکم اورحجت ہے: وعليه معول أهل العراق ومصر والمغرب وكثير من أقطار الأرض (معالم السنن ج 1ص 6)
4- کتاب السنن میں صحیح الاسناد قوی، متصل اور مرفوع احادیث کا خاص اہتمام کیاگیا ہے، اس کی صحت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ امام صاحب نے پہلے پانچ لاکھ احادیث جمع کی تھیں، اور پھر ان میں سے چار ہزار آٹھ سو احادیث کاانتخاب کیا، جو ایک مبسوط مجموعہ کی شکل میں ہمارے سامنے ہے، امام صاحب کے اپنے بیان کے مطابق آپ نے اپنے علم ویقین سے صحیح بلکہ اصح روایات نقل کرنے کی کوشش فرمائی ہے، اور ہمیشہ ان احادیث کو ترجیح دی ہے، جو سند کے اعتبار سے بلند اور اعلی درجہ کی ہیں۔
علامہ خطابی فرماتے ہیں: حكي لنا عن أبي داود أنه قال: ما ذكرت في كتابي حديثاً اجتمع الناس على تركه .
5- سنن ابی داود کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ امام صاحب ایک ہی سند اور ایک ہی متن میں متعدد اسانید اور مختلف متون کو جمع فرماتے ہیں، اور ہر حدیث کی سند اور الفاظ کو علیحدہ علیحدہ بیان کرتے ہیں۔
6- روایتوں کے تکرار سے کوئی کتاب خالی نہیں، لیکن امام ابو داود رحمہ اللہ نے تکرار سے حتی الامکان احتراز اور کثرت طرق کو نظر انداز اور طویل احادیث کو مختصر کردیا ہے، تکرار سے اس وقت کام لیتے ہیں، جب اس روایت میںکوئی خاص بات یا نئے مسئلہ کا استنباط مقصود ہو۔
7- آپ نے روایت میں جامعیت کے ساتھ حسن ترتیب وتالیف کو بھی ملحوظ رکھا ہے، علامہ خطابی فرماتے ہیں: إلا أن كتاب أبي داود أحسن وضعاً ۔
8- ضرورت کے مطابق بعض مقامات پر اسماء وکنی کے علاوہ رواۃ کے القاب کی وضاحت کردی ہے، اسی طرح رواۃ کی ثقاہت وعدم ثقاہت یعنی جرح وتعدیل کو بیان کرتے ہوئے روایات کے حسن وقبح اور صحت وسقم کی بھی وضاحت کی ہے۔
9- اما م صاحب رحمہ اللہ نے غریب اورشاذ روایات کے بجائے مشہور اور معمول بہ روایات کے جمع کرنے کا خاص خیال رکھا ہے۔
10- سنن میں ایک ثلاثی روایت بھی ہے۔
وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه ومن تبعه بإحسان إلى يوم الدين.