1- وہ صحیح احادیث جو صحیحین میں مروی ہیں۔
2- دوسری ایسی احادیث جو شیخین (بخاری ومسلم) کی شرط پر ہیں۔
3- تیسری ایسی احادیث جن کی ان دونوں نے تخریج کی ہے لیکن جن کے بارے میں قطعیت کے ساتھ اس بات کی صراحت نہیں ہے کہ یہ صحیح ہیں، البتہ انہوں نے ان احادیث کے بارے میں اہل علم و معرفت نے جو علتیں ذکر کی ہیں اُن کو بیان کردیا ہے۔ ایسا انہوں نے محض اس لئے کیا ہے کہ کچھ لوگوں نے اِن احادیث کی روایت کی ہے اور ان سے استدلال کیا ہے۔ چنانچہ محض اسی بنا پر اِن دونوں اماموں نے ایسی احادیث کو اپنی کتابوں میں جگہ دی ہے، البتہ اس میں جو کمزوری اورضعف پایا جاتا تھا اس کو واضح کردیا تاکہ شبہ ختم ہوجائے۔ اس کے علاوہ اور کوئی چارئہ کار نہ تھا، کیونکہ ان کے نزدیک یہ روایات لوگوں کے اقوال وآراء کے مقابلے میں زیادہ قوی تھیں۔
امام ترمذی تو ان کی جامع میں چار قسم کی احادیث ملتی ہیں:
1- پہلی قسم وہ ہے جو قطعی طور پر صحیح ہے جو صحیحین کے موافق ہے۔
2- دوسری قسم وہ ہے جو امام ابو داود اور امام نسائی کی شرط پر ہے۔
3- تیسری قسم ہے جو مذکورہ اقسام کے خلاف ہیں اور جن کی علت انہوں نے بیان کردی ہے۔
4- اور چوتھی قسم وہ ہے جس کے بارے میں امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ وہ احادیث ہیں جن پر فقہاء کا عمل رہا ہے۔ اور یہ کہ میں نے اس کتاب میں وہی روایات نقل کی ہیں جو معمول بہ تھیں (یعنی کسی عالم اور فقیہ نے اس پر عمل کیا تھا) یہ بڑی وسیع شرط ہے جس کی بنا پر بہت ساری معمول بہ احادیث آجاتی ہیں۔ خواہ وہ سنداً صحیح ہوں یا غیر صحیح، اس کا ذکر کرکے خود کچھ کہنے اوراُن پرحکم لگانے سے گریز کیا ہے۔ نیز اپنی اس کتاب میں ایک باب کے تحت آنے والی احادیث جو مختلف صحابہ سے مروی ہیں کی طرف اشارہ کردیا ہے، چنانچہ کہتے ہیں کہ اس باب میں فلاں فلاں صحابی سے احادیث مروی ہیں (شروط الأئمہ الستہ)۔
٭حافظ ابوبکر محمدبن موسیٰ حازمی (548-584ھ) اپنی کتاب شروط الائمہ میں لکھتے ہیں:
ائمہ حدیث میں سے جن لوگوں نے صحیح احادیث کی تخریج کی ہے ان کا مذہب اور طریقہ یہ ہے:
وہ اپنی کتابوں میں صرف وہی احادیث ذکر کریں گے جس کی سند میں ایسے راوی ہوں جو خود ثقہ و عادل ہوں اسی طریقہ سے جن مشائخ سے انہوں نے سنا ہے جن لوگوں نے ان سے سنا ہے سب ثقہ و عادل ہوں۔ اور ان میں سے ایک دوسرے کی تحدیث صحیح طور پر ثابت ہو تو ایسی احادیث کی تخریج لازم ہے۔
اور بعض روایتیں ایسی ہیں کہ وہ اس لائق نہیں ہیں کہ ان کی تخریج کی جائے الا یہ کہ بطور شاہداور متابع کے ان کا ذکر کیا جائے۔
فرماتے ہیں: یہ ایسا باب ہے جس میں غموض ہے اور اس طریق ومنہج کی وضاحت کے لئے راویوں کے طبقات اور ان کے مراتب کی معرفت اور اس کا علم ہونا چاہئے، جس کو ہم ایک مثال سے واضح کردینا چاہتے ہیں۔ مثال کے طور پر تلامذئہ زہری کے پانچ طبقات ہیں، اور ہر طبقہ دوسرے طبقہ سے مختلف اور ممتاز ہے:
پہلا طبقہ انتہا درجہ کی صحت کا حامل ہے جیسے مالک، سفیان بن عیینہ، عبید اللہ بن عمر، یونس اورعقیل جیسے لوگ، یہ طبقہ رواۃ امام بخاری کا مقصود ومطلوب ہے۔
دوسرا طبقہ پہلے طبقہ کی طرح ہی انتہا درجہ کی صحت کا حامل ہے البتہ یہ پہلے سے کچھ کم درجہ کے ہیں، اور ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ پہلے طبقہ کے رواۃ امام زہری کی صحبت میں دوسرے طبقہ کے مقابلے میں زیادہ رہے، نیز اس طبقہ کے لوگ (حدیث کی روایت وحفظ کے باب میں) اتقان اور پختگی میں پہلے طبقہ کے لوگوں سے کچھ کم درجہ کے ہیں، اور یہ لوگ امام مسلم کی شرط کے مطابق ہیں، جیسے اوزاعی، لیث بن سعد، نعمان بن راشد، عبد الرحمٰن بن خالد بن مسافراور ابن ابی ذئب جیسے رواۃ حدیث۔
تیسرا طبقہ پہلے طبقہ رواۃ کی طرح ہی امام زہری کی صحبت میں رہاہے۔ البتہ یہ طبقہ سابقہ رواۃ سے باعتبار صحت کچھ کم درجہ کا ہے، ان دونوں طبقوں میں فرق یہ ہے کہ اس طبقہ کے لوگ امام زہری کی صحبت میں پہلے طبقہ کی طرح رہے، لیکن یہ لوگ حفظ و اتقان میں پہلے طبقہ کے لوگوں کی طرح نہیں بلکہ ان سے بہت کم ہیں۔ ان کی روایتوں کے رد و قبول کے سلسلہ میں محدثین کا اختلاف رہا ہے۔ اور یہ طبقہ رواۃ امام ابو داود اور امام نسائی کی شرط کے مطابق ہیں۔ جیسے سفیان بن حسین، جعفر بن برقان اور اسحاق بن یحییٰ کلبی۔
چوتھا طبقہ جرح و تعدیل کے معاملہ میں تیسرے طبقہ رواۃ کی طرح ہی ہیں، لیکن ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ اس طبقہ کے لوگ امام زہری کی صحبت میں تیسرے طبقہ کی طرح نہیں رہے ہیں، اس طبقہ کے لوگ چونکہ امام زہری کی صحبت میں کم رہے ہیں اس لئے وہ روایت حدیث میں متفرد ہیں، اور یہ لوگ امام ترمذی کی شرط کے مطابق ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ امام ترمذی کی شرط امام ابو داود کی شرط کے مقابلہ میں زیادہ قوی ہے، کیونکہ جب حدیث ضعیف ہوتی ہے یا طبقہ رابعہ کے راویوں کی روایت ہوتی ہے تو امام ترمذی اس حدیث میں پائے جانے والے ضعف و علت کو بیان کردیتے ہیں اور اس پر متنبہ کردیتے ہیں پس ان کے نزدیک وہ حدیث بطور شاہد و متابع کے ہوتی ہے۔ اور ان کا اعتماد ان احادیث پر ہوتاہے جو جماعت محدثین کے نزدیک صحیح و ثابت ہوں، اور اس طبقہ کے لوگ زمعہ بن صالح، معاویہ بن یحییٰ صدفی اور مثنیٰ بن صباح جیسے رواۃ ہیں۔
پانچویں طبقہ میں ضعیف اور مجہول رواۃ اور ایسے راوی ہیں کہ جن کی روایتوں کی تخریج جائز ہی نہیں البتہ امام ابوداود کے نزدیک بطوراعتبار اور استشہاد اس کو ذکر کیا جا سکتا ہے، جبکہ امام بخاری و مسلم کے نزدیک ایسے رواۃ سے روایت جائز نہیں ہے، اس طبقہ میں بحر بن کنیز السقاء، حکم بن عبد اللہ الایلی، عبد القدوس بن حبیب، محمد بن سعید مصلوب جیسے رواۃ ہیں۔
امام بخاری نے ضرورت کے تحت بسا اوقات طبقہ ثانیہ کے مشہور راویوں کی احادیث کی تخریج کی ہے۔ اسی طرح امام مسلم نے ضرورت کے تحت بسا اوقات طبقہ ثالثہ کے مشہور راویوں کی احادیث کی تخریج کی ہے۔ اور امام ابوداود نے ضرورت کے تحت بسا اوقات طبقہ رابعہ کے مشہور راویوں کی احادیث کی تخریج کی ہے۔
امام نسائی کی ''سنن'' کو شرائط کے اعتبار سے بھی اہمیت حاصل ہے، حافظ ابوالفضل محمد بن طاہر مقدسی شروط الائمہ میں لکھتے ہیں: سعدبن علی زنجانی سے ایک آدمی کے بارے میں سوا ل کیا تو انہوں نے اس کی توثیق کی، میں نے ان سے عرض کیا کہ نسائی نے ان سے حجت نہیں پکڑی ہے، تو انہوں نے کہا: اے بیٹے ابوعبدالرحمن کی رجال حدیث میں بخاری ومسلم سے زیادہ قوی شرط ہے (شروط الائمہ 18، السیر 14/131، والنکت لابن حجر 122، تذکرۃ الحفاظ 2/700، مقدمہ زہر الربی1/4)۔
ذہبی زنجانی کے قول پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: سچ کہا، نسائی نے صحیح بخاری اور مسلم کے بعض رواۃ کی تضعیف کی ہے۔
حافظ ابن رجب کہتے ہیں: الإمام النسائي فشرطه أشد ولا يكاد يخرج لمن يغلب عليه الوهم ولا لمن يفحش الخطاء كثير. (حاشیہ مقدمہ زہر الربی) (امام نسائی کی شرط زیادہ سخت ہے، جن رواۃ پر وہم غالب ہوتاہے، تقریباً ان سے روایت نہیں کرتے، ایسے ہی فاحش الغلط اور کثیر الغلط سے بھی روایت نہیں کرتے)۔
لیکن یہ کوئی انوکھی شرط نہیں، جس کا شیخین نے لحاظ نہ کیا ہو، یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن کثیر اس پر تعاقب کرتے ہوئے کہتے ہیں: إنه غير مسلم فإن فيه رجالا مجهولين إما عينا أو حالا وفيهم المجروح وفيه أحاديث ضعيفة معللة ومنكرة (یہ کہنا کہ رجال حدیث کے بارے میں نسائی کی شرط مسلم سے زیادہ قوی ہے، قابل تسلیم نہیں، اس لیے کہ نسائی میں مجہول العین اور مجہول الحال نیز بعض مجروح اور متکلم فیہ رواۃ ہیں، اس میں ضعیف، معلول اور منکر احادیث بھی ہیں (الباعث الحثیث: 31)۔
(2) محمد بن سعد الباوردی کہتے ہیں: امام نسائی کا یہ مذہب تھا کہ وہ ہر اس راوی سے روایت لیتے جس کے ترک پر اجماع نہ ہوتا، اور اس اجماع سے ان کی مراد یہ ہے کہ نقاد رجال کے ہر دور میں باعتبار متشدد ومتوسط ہونے کے دوطبقے رہے ہیں، پہلے طبقہ میں شعبہ اور سفیان ثوری، اور شعبہ سفیان ثوری سے متشدد تھے، دوسرا طبقہ یحیی القطان اور عبدالرحمن مہدی کا ہے، جن میں یحیی متشدد ہیں، تیسرا یحیی بن معین اور احمدبن حنبل کا اس میں ابن معین متشدد ہیں۔ اور چوتھا ابوحاتم اور امام بخاری کا اور اس میں ابوحاتم متشدد ہیں، امام نسائی فرماتے ہیں: لا يترك عندي حتى يجتمع الجميع على تركه.
لیکن حافظ ابن حجر النکت علی مقدمۃ ابن صلاح میں اس پر تعاقب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: علا مہ عراقی کا یہ کہنا کہ إن مذهب النسائي في الرجال مذهب متسع ليس كذلك، بل تجنب النسائي إخراج حديث جماعة من رجال الصحيحين رواۃ حدیث کے بارے میں یہ کہنا کہ نسائی کا مذہب وسیع ہے، حقیقت میں ایسا نہیں ہے، کیوں کہ بہت سے ایسے اشخاص ہیں جن سے ابوداود اورترمذی نے روایتیں لی ہیں، مگر امام نسائی نے ان سے روایات لینے سے اجتناب کیا ہے (فتح المغیث)۔
اب ایک طرف تو امام موصوف کا قول ہے: لايترك عندي حتى يجتمع الجميع على تركه.اور دوسری طرف بقول ابن حجر کے امام نسائی صحیحین کے متعدد راویوں کو ضعیف قرار دیتے ہیں اور ان سے روایت لینے سے اجتناب کیا ہے، البتہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے یہ شرط السنن الکبری میں تو ملحوظ رکھی ہے، لیکن المجتبی میں اس کے خلاف کیا ہے جیسا کہ شیخ الاسلام حافظ ابن حجر نے کہا ہے بعد میں جب مزید اس پر غور کریں تو ہمیں اپنے اس دعویٰ کی تائید حاصل ہوجاتی ہے، مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی تعلیقات سنن نسائی کے سلسلے میں لکھتے ہیں: ويمكن أن يكون أشدية الشروط في المجتبى ومذهبه المتسع في الكبرى والله أعلم. (ممکن ہے کہ مجتبیٰ یعنی سنن صغریٰ کی شرط زیادہ سخت ہو، اور کبریٰ میں شرط آسان ہو، واللہ اعلم۔
(3) حافظ محمد بن طاہر مقدسی نے شروط الأئمہ میں یہ بھی ذکر کیا ہے کہ امام ابوداود اور نسائی کی کتابوں میں تینوں قسموں کی روایات ہیں:
1- وہ روایات جو صحیحین میں ہیں۔
2- وہ جو صحیحین کی شرط پر ہیں۔
3- وہ روایات جو متکلم فیہ ہیں، اور ان کی نشاندہی بھی انہوں نے کردی ہے، کیونکہ ان کا یہ مذہب تھا کہ جب وہ کوئی اور صحیح روایت نہ پاتے تو ضعیف کوہی نقل کردیتے لأنه أقوى عندهما من رأى الرجال. (اس لیے ابوداود اور نسائی کے نزدیک ضعیف حدیث لوگوں کی آراء سے زیادہ قوی ہے)۔
سنن نسائی سے مراد مجتبیٰ (سنن صغریٰ) ہے یا ''سنن کبریٰ''
مجتبیٰ یعنی سنن صغریٰ کے بارے میں اختلاف یہ ہے کہ یہ نسائی کی تالیف ہے، یا کتاب کے راوی ابن السنی کی، اور راجح یہ ہے کہ یہ امام نسائی کی تالیف ہے، جس کی سب سے بڑی دلیل سنن کبریٰ کے بعد صغریٰ میں اس انتخاب کے ساتھ ساتھ بہت ساری احادیث کا سنن صغریٰ میں اضافہ جو کہ کبریٰ میں نہیں ہے، اور ساتھ ہی تراجم ابواب میں رد وبدل اور تصرف اور تقدیم وتاخیر، دوسرا اختلاف یہ رہا ہے کہ سنن نسائی سے مراد صغریٰ ہے یا کبریٰ؟ علماء کے اس کتاب کے سلسلے میں مختلف اقوال اور استعمالات کا خلاصہ یہ ہے کہ کبھی اس سے مراد کوئی صغریٰ لیتا ہے اورکبھی کوئی کبریٰ، لیکن سب کی نسبت امام نسائی ہی کی طرف ہوتی ہے، ابویعلی، مزی، ذہبی، ابن حجر، تقی الدین الفاسی، ابن قاضی شہبہ، ابن تغری بردی اور سخاوی یہ سب امام نسائی کو ''صاحب السنن'' کہتے ہیں، لیکن صغریٰ یا کبریٰ کا ذکر نہیں کرتے، اور سنن کے رواۃ کی تفصیل سے یہ معلوم ہوا کہ مشرق ومغرب میں سنن کبریٰ کی شہرت ہوئی اور دسیوں علماء نے اسے نسائی سے روایت کی، اور صرف سنن صغریٰ کی روایت جس کی تالیف نسائی نے آخری عمرمیں کی صرف ابن السنی سے مروی ہے۔
بعض علماء سنن نسائی کے استعمال سے صغریٰ ہی مراد لیتے ہیں، جیسے تاج الدین السبکی، سیوطی، صدیق حسن خان، اور کتانی وغیرہ، کتانی کہتے ہیں کہ صغریٰ کا شمار امہات کتب حدیث میں ہے، جس کے اطراف اور رجال پر کتابیں مدون ہوئی ہیں، بعض لوگوں کے قول کے برخلاف کہ اس سے کبریٰ مراد ہے (الرسالۃ المستطرفۃ: 12)۔
حقیقت میں کتب رجال اور اطراف کتب ستہ میں سنن کبریٰ ہی کا اعتبار کیا گیا ہے، سب سے پہلے ابن عساکر دمشقی نے سنن اربعہ کے اطراف تیارکئے، جس میں صغریٰ اور کبریٰ دونوں کے اطراف کو شامل کیا، مزی، ابن عساکر پرکبریٰ کی بعض احادیث کا استدراک کرتے ہیں بالخصوص حمزہ کنانی کی روایت سے اور اس کے بعد مزی نے کتب ستہ کے اطراف میں ابن عساکر کی پیروی کرتے ہوئے صغریٰ اور کبریٰ کی احادیث کا تذکرہ کیا، کتب ستہ کے رجال میں مزی کی تہذیب الکمال اور ذہبی اور ابن حجر کی مختصرات میں صغریٰ اور کبریٰ کے رجال کا تذکرہ ہے، اورسنن کبریٰ میں (120) ایسے رواۃ بھی ہیں جو سنن صغریٰ میں نہیں پائے جاتے، لیکن تہذیب الکمال اوراس کے مختصرات میں ان رواۃ کاتذکرہ ہے، یہی وجہ ہے کہ مزی، ابن کثیر اور ابن حجر اس مسئلہ میں خاموش نظر آتے ہیں، کیونکہ وہ دونوں کتابوں کی حقیقت سے زیادہ واقف ہیں، یہ بھی واضح رہے کہ ابن الاثیرنے جامع الأصول میں سنن صغریٰ کو شامل کیاہے، اس لیے کہ یہ روایت ان کے سماع میں تھی، سنن کبریٰ ان کے سماع میں نہیں تھی، اسی لیے شیخ عبدالصمد شرف الدین الکتبی سنن کبریٰ کے مقدمے میں کہتے ہیں کہ ذہبی کی طرح ابن الاثیر نے بھی سنن کبریٰ کی سماع نہیں کی تھی (1/20)۔
یہ بھی واضح رہے کہ سنن صغریٰ ہی لوگوں میں موجودتھی اور رہ گئی سنن کبریٰ توعصرحاضر میں اس کی اشاعت عمل میں آئی ہے۔