امام بخاری اور امام مسلم کے بارے میں مشہور ہے کہ اُن کا کسی راوی سے روایت لینا ہی اس راوی کی توثیق ہے، اسی طرح سے نسائی کے بارے میں بعض اقوال میں یہ آیا ہے کہ نسائی نے جس سے روایت کی وہ ثقہ ہے۔ ذیل میں اس مسئلے پرروشنی ڈالنے والی مثالیں پیش خدمت ہیں:
1- حافظ ابن حجر کہتے ہیں: احمد بن عیسیٰ تستری کی حدیث کی تخریج پر ابوزرعہ نے مسلم کو مطعون کیا ہے، لیکن اس کا کوئی سبب نہیں بیان کیا، جب کہ نسائی نے تعنت اور تشدد کے باجود اس راوی کی توثیق کی ہے (تہذیب التہذیب 1/39، وہدی الساری 384)، نسائی کا قول ہے: ''لیس بہ بأس''۔
2-حارث الأعور کے ترجمے میں ذہبی کہتے ہیں: حارث کی حدیث سنن اربعہ میں ہے، نسائی نے رجال کے نقدمیں تعنت اور تشدد کے باوصف ان سے استدلال کیا ہے اوران کی تقویت کی ہے (میزان الاعتدال وتہذیب التہذیب 1/332)۔
3-حافظ ابن حجر ابوبلج یحیی الکوفی کے بارے میں کہتے ہیں: ان کی تقویت کے لیے یہی کافی ہے کہ نسائی اور ابوحاتم رازی نے تشدد کے باوجود ان کی توثیق کی ہے (بذل الماعون فی فضل الطاعون)۔
4-احمد بن یحیی بن محمد بن کثیر الحرانی مجہول راوی ہیں، اور یہ نسائی کے شیخ ہیں، نسائی نے ان کی توثیق بھی کی ہے، ان کے بارے میں ذہبی کہتے ہیں: ''لا يعرف''لیکن ابن حجر کہتے ہیں: نسائی کا ان سے روایت کرنا ان کی عینی جہالت کو ختم کرتا ہے، اوران کے معروف الحال ہونے اور ان کی توثیق کے لیے کافی ہے (تہذیب التہذیب 1/51)۔
5-حافظ صلاح الدین العلائی کہتے ہیں: عبدالملک بن زید کے بارے میں نسائی کا قول ہے: لابأس بہ، ابن حبان نے بھی ان کی توثیق کی ہے تو حدیث ''أقیلوا عن ذوی الہیئات عثراتہم إلا الحدود'' ان شاء اللہ حسن ہے، خاص کر نسائی نے عبدالملک سے روایت کی ہے، اس لیے کہ نسائی منکر اور واہی روایات کی تخریج نہیں کرتے اور نہ ہی متروک راوی سے روایت کرتے ہیں (مرقاۃ الصعود فی حاشیۃ أبی داود للسیوطی 2/253، وعون المعبود 4/232)۔
6- حافظ ذہبی: ابوالولید احمد بن عبدالرحمن بسری کے بارے میں خطیب بغدادی کا قول نقل کرتے ہیں کہ ابوالولید کا حال ہمارے یہاں وہ نہیں ہے جو ابوبکر باغندی نے ان کے بارے میں سکری سے نقل کیا ہے، بلکہ وہ اہل صدق میں سے تھے، نسائی نے ان سے روایت کی ہے، اور تمہارے لیے یہی کافی ہے (میزان الاعتدال 1/115)۔