ضعیف رواۃ کے بارے میں امام نسائی کا مذہب:
حافظ ابن حجرنزہۃ النظر میں جرح وتعدیل کے مراتب اور اس میں استعمال ہونے والے الفاظ کے ذکر کرنے کے بعدکہتے ہیں: جر ح وتعدیل میں صرف عادل اور بیدار مغز ناقد کی رائے قبول کرنی چاہئے اور جس نے جرح میں افراط اور زیادتی سے کام لیااس کی جرح کو نہیں قبول کرنا چاہئے، اس طورپر کہ محدث کی حدیث کو رد کرنے کے لیے ایسی جرح کرے جس کا مقتضا ء حدیث کو رد کردینا ہو، ایسے ہی مطلق تعدیل وتزکیہ کو نہیں قبول کرنا چاہئے، ذہبی جو کہ رجال کے نقدمیں استقراء تام رکھتے تھے کہتے ہیں: علم حدیث کے دوعالم کبھی کسی ضعیف کی توثیق پر اکٹھانہیں ہوتے اور نہ کسی ثقہ کی تضعیف پر اکٹھاہوتے ہیں، انتہی، اسی لیے نسائی کا مذہب یہ تھا کہ جب تک راوی کی حدیث کے ترک پر سب کا اتفاق نہ ہوجائے اس کی حدیث کو متروک نہیں قرار دیاجائے گا: ولذا كان مذهب النسائي أن لايترك حديث الرجل حتى يجتمع الجميع على تركه (نزہۃ النظر)
ذہبی کے اس کلام کا مقصد یہ ہے کہ علماء کسی ثقہ کو ضعیف کہنے پر متفق نہیں ہوتے بلکہ بعض ثقہ کہتے ہیں تو بعض اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں، ایسے ہی کسی ثقہ راوی کو ضعیف کہنے پر علماء متفق نہیں ہوتے، اگر کسی نے اس راوی کو ضعیف کہاتو کسی نے اس کو ثقہ قرار دیا، یعنی کسی ضعیف راوی کی توثیق یا ثقہ کی تضعیف پر علماء کا اتفاق ہونا مشکل امرہے، ذہبی نے دوکا لفظ استعمال کیا ہے، جس کا معنی سب کا ہے، جیسا کہ لوگ کہتے ہیں: اس بات پر دوآدمی کبھی اتفاق نہیں کرسکتے، یعنی سب لوگ اس پرمتفق ہیں، اور اس میں کوئی نزاع نہیں ہے۔
دوسرے ائمہ حدیث کا بھی یہی مذہب ہے، احمد بن حنبل کے مذہب کے بارے میں یہ روایت ملاحظہ ہو: قال يعقوب: قال لي أحمد بن حنبل: مذهبي في الرجال لا أترك حديث محدث حتى يجتمع أهل مصر على ترك حديثه". (فتح المغيث) یعقوب کہتے ہیں کہ مجھ سے احمد بن حنبل نے کہا: رجال حدیث کے بارے میں میرا مذہب یہ ہے کہ جب تک کسی شہر کے سارے لوگ کسی محدث کی حدیث کے ترک پر اتفاق نہ کرلیں میں اس محدث کی حدیث کو ترک نہیں کرتا (تہذیب التہذیب: ترجمۃ عبداللہ بن لہیعہ المصری 2/412)۔
نسائی کو متشددناقد حدیث شمار کیا گیاہے، اسی واسطے بعض رواۃ کی توثیق کے موقع پر حافظ ابن حجرنسائی کی اس راوی سے روایت ہی کو توثیق کے لیے کافی قرار دیتے ہیں، جس کی کئی مثالیں گزریں۔
ناقدین حدیث نے ابوحاتم رازی، نسائی، ابن معین، ابوالحسن ابن القطان، یحیی بن سعید القطان اور ابن حبان وغیرہ کو متشدد ناقدبتایا ہے، اس طور پر کہ ایسے ناقد ایک دو غلطی پر راوی کی تجریح کردیتے ہیں، ایسے ناقدین حدیث جب کسی راوی کی توثیق کردیں تو وہ انتہائی لائق اعتبارہے، لیکن اگر کسی راوی کی تجریح کریں تو اس راوی کے بارے میں دوسرے ناقدین کے اقوال کو دیکھاجائے گا، اگر کسی معتبر ناقدنے ایسے راوی کی توثیق نہیں کی تو متشدد ناقد کے حکم پر عمل کرتے ہوئے راوی کو ضعیف قراردیاجائے گا، اور اگر کسی نے ایسے راوی کی توثیق کی ہو تو ایسے موقع پر تفصیلی جرح کومقبول ماناجائے گا یعنی تضعیف کے لیے سبب ضعف بیان کرنا ہوگا، یعنی اگر ابن معین مثلاً کسی راوی کے بارے میں کہیں کہ فلاں راوی ضعیف ہے اور سبب ضعف نہ بیان کریں اور دوسرے ناقدین حدیث، جیسے بخاری وغیرہ ایسے راوی کی توثیق کر یں تو جرح مبہم کو نہیں مانا جائے گا، بلکہ توثیق کو مقدم رکھاجائے گا (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: فتح المغیث للسخاوی والإعلان بالتوبیخ لمن ذم أہل التوریخ 167)۔